کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 857
تِلْکَ أَمَانِیُّھُمْ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ بَلٰی مَنْ أَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ أَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ [البقرۃ:۱۱۱،۱۱۲] [’’یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا کوئی نہ جائے گا یہ صرف ان کی خواہشات ہیں ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ، سنو جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے ، بے شک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا اس پر نہ تو کوئی خوف ہو گا نہ غم۔‘‘] ۱۰؍۱؍۱۴۲۴ھ س: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے ، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ (مولانا محمد بشیر) ج: ’’اختلافُ اُمتی رحمۃ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ، صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ [1]اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ إِلاَّ مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ﴾[ھود:۱۱۸،۱۱۹][’’وہ اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے سوائے اُن کے جن پر تیرا رب رحم فرمائے۔‘‘] ۹؍۳؍۱۴۲۳ھ س: کیا اس وقت کوئی شرعی امیر یا جماعت ہے؟ یا تمام جماعتیں فرقہ بندی کے معنی میں آئیں گی۔ (شاہد سلیم ، لاہور) ج: فی زمانہ مسلمانوں کا امیر و امام ہے نہ جماعت۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا تھا: ((فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَھُمْ جَمَاعَۃٌ وَلَا إِمَامٌ)) [2] [’’اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہو۔‘‘]تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا)) [’’ان تمام گروہوں سے الگ رہو ۔‘‘] یاد رہے آپ نے ((فَاعْتَزِلِ الاِسْلَامَ)) [’’اسلام سے الگ رہو۔‘‘] نہیں فرمایا لہٰذا اسلام پر قائم و دائم رہنا ہے۔ س: میں اپنی مقدور بھر کوشش سے ایک لائن پر لگا ہوں ، میرے لحاظ سے تو وہ لائن ٹھیک ہے لیکن عین ممکن ہے کہ شافعی کی لائن ٹھیک ہو اور میں غلط ہوں ، لہٰذا مجھے رواداری سے کام لینا چاہیے یہ بزرگوں کا نظریہ ہے ، اگر آدمی اسے اپنا لے تو انسان تکبر اور غرور میں مبتلا نہیں ہوتا ۔ اس سے معاشرے میں بھی صبر کا مادہ پھیلتا ہے۔ (اللہ دتہ) ج: آپ لکھتے ہیں :’’میں اپنی مقدور بھر کوشش سے ایک لائن پر لگا ہوں ، میرے لحاظ سے تو وہ لائن ٹھیک ہے لیکن عین ممکن ہے کہ شافعی کی لائن ٹھیک ہو اور میں غلط ہوں ۔‘‘
[1] سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ۔ محمد ناصر الدین الالبانی المجلد الاوّل ، ص:۱۴۱۔ [2] صحیح بخاری؍کتاب الفتن؍باب کیف الأمرُ اذا لم تکن جماعۃ۔