کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 842
سوال نمبر ۶:.....کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاتھا کہ نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھے تھے؟ جواب:.....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا یہ ایسی واضح حقیقت ہے جس کو کئی ایک روایات کی تائید حاصل ہے ۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے صرف ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تو میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینہ کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ (صحیح ابن خزیمہ : ۱؍۲۴۳) واضح رہے کہ بحر الرائق شرح کنز الدقائق کے حنفی مؤلف نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سینہ سے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایات عند المحدثین بالاتفاق ضعیف ہیں ۔ (دیکھئے: شرح مسلم للنووی) سوال نمبر ۷:.....کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کہنی پر رکھا تھا؟ جواب:.....حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیوں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے قبلہ کی طرف منہ کیا ، تکبیر تحریمہ کہی اور کانوں تک ہاتھ اُٹھائے پھر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی گٹ اور کلائی ( ساعد) پر رکھا۔ (ابو داؤد مع العون : ۱؍۲۶۵) وضاحت:.....ہم جب بھی نمازِ نبوی کو بیان کرتے ہیں اور مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں تو اس مذکور حدیث کی روشنی میں ہی وضاحت کرتے ہیں کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی ،گٹے اور کلائی پر رکھ کر سینے پر رکھا جائے ۔ باور کیا جاتا ہے کہ حدیث میں موجود کلمہ ’’ساعد ‘‘ جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جو گٹے سے شروع ہو کر کہنی تک جاتا ہے ۔ کہنی شامل نہیں ہے اگر کوئی شخص کہنی پر بھی ہاتھ رکھنے کا اہتمام کرتا ہے تو یہ اسے ہماری تعلیم و تلقین نہیں ، ذاتی طور پر اس کی غفلت ہے۔ سوال نمبر ۸:.....ایک صحیح مرفوع حدیث پیش کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا سال تہجد کی اذان کا حکم فرمایا ہو وہ اذان رمضان شریف میں سحری کھانے کے لیے نہ ہو بلکہ پورا سال تہجد پڑھنے کے لیے ہو؟ جواب:.....رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فجر کے وقت ہر روز دو اذانیں ہی ہوا کرتی تھیں ، صرف رمضان المبارک کے مہینہ کی تخصیص و تعیین میں کوئی روایت نہیں آئی۔ دو اذانوں کا جو معمول سار ا سال تھا وہ معمول رمضان المبارک میں بھی تھا۔ اس بارے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ کیجئے: (( عَنْ عَبْدِ ا للّٰه بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ ا للّٰه عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی ا للّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ فَاِنَّہٗ یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قائمَکُمْ وَلِیُنَبِّہَ نَائِمَکُمْ))