کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 84
کرنا۔۴۹۔مسلمان حاکم کی اطاعت کرنا بشرطیکہ اس کا حکم خلافِ شرع نہ ہو۔۵۰۔جماعت اسلام سے وابستہ رہنا۔۵۱۔لوگوں میں عدل و انصاف کرنا۔۵۲۔نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔۵۳۔نیکی کے کاموں پر مدد اور برائی میں تعاون نہ کرنا۔۵۴۔شرم و حیاء۔۵۵۔والدین کی خدمت کر کے جنت لینا۔۵۶۔صلہ رحمی۔۵۷۔حسن خلق ، تواضع و انکساری۔۵۸۔غلاموں اور نوکروں سے اچھا سلوک۔۵۹۔ سر پرست اور مالک کی فرمانبرداری۔ ۶۰۔بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا اور ان کی تعلیم و تربیت و نان نفقہ کا انتظام۔۶۱۔ مومنوں سے میل جول اور محبت رکھنا۔۶۲۔سلام کہنا اور سلام کا جواب دینا۔۶۳۔بیماروں کی بیمار پرسی ، جنازے میں شرکت ، خیر خواہی۔۶۴۔ کافروں اور مشرکوں سے علیحدگی اختیار کرنا اور ان سے دوستی ہرگز نہ کرنا۔۶۵۔پڑوسی کی عزت کرنا اور اس کی عصمت کی حفاظت کرنا۔۶۷۔مہمان نوازی کرنا۔۶۸۔مسلمان کی پردہ پوشی کرنا۔۶۹۔مصیبت پر صبر اور ناجائز خواہش سے نفس کو روکنا۔۷۰۔ دنیا سے بے رغبتی اور اُمیدوں کو کم کرنا۔۷۱۔ غیرت مند ہونا اور دیوثی سے بچنا۔ ۷۲۔فضول و لغو کاموں سے بچنا۔۷۳۔ سخاوت کرنا اور بخل سے بچنا۔۷۴۔بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت۔۷۵۔ آپس میں صلح جوئی سے رہنا اور صلح کروانا۔۷۶۔مسلمان کی چھینک کا جواب دینا۔ ۷۷۔تکلیف دہ چیزوں کو راستہ سے ہٹانا۔ (شعب الایمان ، بیہقی) س: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ کیونکہ یہاں ہر چند لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ اور مندرجہ ذیل حدیث پیش کرتے ہیں : ’’نسائی میں عکرمہ کی روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (( أَتَعْجَبُونَ أَنْ تَکُونَ الخُلَّۃُ لِإِ بْرَاھِیْمَ وَالْکَلاَمُ لِمُوْسٰی وَالرُّؤْیَۃُ لِمُحَمَّدٍ۔)) ’’ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے خلیل بنایا۔ موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو کلام سے سرفراز کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیت کاشرف بخشا۔‘‘ ][1] (محمد حسین بن عبدالصمد ابراہیم) ج: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رؤیت بالفؤاد والقلب کے قائل ہیں ۔ اس روایت .....رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ.....کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس رؤیت سے مراد رؤیت قلبی ہے، جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی فرماتے ہیں : ’’ بفؤادہ ‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’بقلبہ‘‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب تعالیٰ کو فو اد و قلب کے ساتھ دیکھا ہے۔ [2]لہٰذا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی اس روایت اور آیت کریمہ: ﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ
[1] مستدرک حاکم ، ج: ۱ ، ص:۱۳۳ ، سنن نسائی الکبریٰ ، ج:۶ ، ص:۴۷۲ ، کتاب التفسیر قولہ تعالیٰ ماکذب الفؤاد ماراٰی [2] مسلم ؍ کتاب الایمان ؍ باب معنی قول اللّٰه عزوجل ولقد راہ نزلۃ اخری ، ج:۱