کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 836
تخریج کے قاعدہ پر فقہ کی ترتیب: لیکن ان علماء کے ذہن میں فطانت اور سرعت انتقال ایسی تھی جس سے وہ مسائل کا استخراج بخوبی کرتے تھے اور اپنے اصحاب کے اقوال سے اسے خوب پیوند لگاتے تھے اور جو چیز جس کی پیدائش میں ہوا کرتی ہے وہی اس کے لیے آسان ہو جایا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ﴾ [الروم:۳۲] ’’ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے۔‘‘ اس طرح ان علماء نے تخریج کے قاعدہ پر فقہ کی ترتیب دی ہر شخص اس کی کتاب کو محفوظ رکھتا تھا جو ان کے اصحاب کی زبان اور اقوال علماء کا زیادہ واقف اور ترجیح میں زیادہ درست رائے ہوا کرتا تھا ، اس لیے ہر مسئلہ میں وہ حکم کی وجہ میں غور کر سکتا تھا جب کسی عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو وہ اپنے اصحاب کے واضح اقوال میں غور کرتا جو اسے حفظ ہوتے تھے اگر ان میں جواب مل جاتا تو فبھا ورنہ ان کے عموم کلام کو دیکھتا اور اس عموم سے مسئلہ کا حکم اخذ کر لیتا یا کسی کلام کے اشارۂ ضمنی سے حکم کو مستنبط کر لیتا ۔ کبھی کبھار بعض کلام میں کوئی اشارہ یا اقتضاء ہوا کرتی تھی اس سے امر مقصود سمجھ آجایا کرتا تھا۔ اور کبھی کسی مصرح مسئلہ کی کوئی نظیر ہوا کرتی تھی اسی نظیر پر اصل مسئلہ کو حمل کر لیا کرتے تھے۔ اور کبھی انہوں نے مصرح حکم کی علت میں غور کیا اور اسی علت کو غیر مصرح حکم میں ثابت کر دیا۔ اور کبھی اس عالم کے اس مسئلہ میں دو قول ہوا کرتے تھے اگر ان کو قیاس اقترانی یا شرطی کے ہم شکل کر لیتے تو مسئلہ کا جواب اس سے حاصل ہو جاتا تھا۔ اور کبھی ان کے کلام میں ایسے اُمور ہوتے جو مثال اور تقسیم سے معلوم ہوتے تھے لیکن ان کی تعریف جامع اور مانع معلوم نہ ہوتی اس لیے ان فقہاء نے اصل زبان کی طرف رجوع کیا اور ا س چیز کے ذاتیات معلوم کرنے کی کوشش کی اور ان کی تعریف جامع و مانع مرتب کر دی اور ان میں جو ابہام تھا اسے ضبط میں لے آئے اور مشکل کو ممیز کر دیا۔ اورکبھی ان کی کلام میں چند وجوہ کا احتمال ہوتا انہوں نے دو احتمالوں میں سے ایک کو متعین کر دیا اور کبھی دلائل کا انداز ایسا نہ ہوتا جس سے نتیجہ صاف نکلتا ، انہوں نے ان دلائل کو بخوبی بیان کر دیا اور کبھی بعض اصحاب التخریج اپنے ائمہ کے فعل اور سکوت وغیرہ سے استدلال کیا کرتے تھے۔