کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 804
ہے ہم کمزور راوی کی حدیث کو ترجیح دیں گے۔ کیونکہ وہ مبنی برحقیقت ہے۔ امام ترمذی کی حسن روایت کی تعریف کیا ہے ، اس پر کونسے اعتراضات ہو سکتے ہیں ؟ کیا ایسی دو مثالیں آپ نوٹ کر سکتے ہیں کہ جس کو امام ترمذی نے حسن کہا ہو اور پھر انہی دو حدیثوں کو وہ بنفس نفیس ناقابل احتجاج گردانتے ہوں ؟(اللہ دتہ) ج: آپ لکھتے ہیں :’’ حنفیوں کے مطابق کمزور راوی کی حدیث چونکہ واقعے کے مطابق ہے ہم کمزور راوی کی حدیث کو ترجیح دیں گے کیونکہ وہ مبنی برحقیقت ہے۔‘‘ آپ نے اس کی کوئی مثال پیش نہیں فرمائی ، اس کی کوئی ایک مثال پیش فرمائیں پھر اس پر غور کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ بات مبنی برحقیقت نہیں ۔ ان شاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔ ۲۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ’’العلل الصغیر‘‘ میں لکھتے ہیں : (( وَمَا ذَکَرنَا فِیْ ھٰذَا الْکِتَابِ حَدِیْثٌ حَسَنٌ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِہٖ حُسْنَ إِسْنَادِہٖ عِنْدَنَا کُلُّ حَدِیْثٍ یُرْوٰی لَا یَکُوْنُ فِیْ إِسْنَادِہٖ مَنْ یُّتَّھَمُ بِالْکَذِبِ وَلَا یَکُوْنُ الْحَدِیْثُ شَاذًا وَیُرْوٰی مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ نَحْوِ ذٰلِکَ فَھُوَ عِنْدَنَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ)) (کتاب العلل مع التحفۃ:۴؍ ۴۰۰) امام صاحب کی تعریف سے واضح ہے کہ مرسل و منقطع ، معلل اور کثیر الغلط سي ٔ الحفظ کی روایت ان کے نزدیک حسن کے زمرہ میں شامل ہے جبکہ محدثین اور امام صاحب کے نزدیک ایسی روایات ناقابل احتجاج اور ضعیف ہوتی ہیں ۔ ۳۔آپ نے دو مثالوں کا مطالبہ کیا ہے تو محترم آپ کی مطلوبہ دو مثالیں پیش خدمت ہیں بتوفیق اللہ سبحانہ و تعالیٰ و عونہ۔ 1…امام ترمذی اپنی کتاب ’’جامع و سنن ترمذی‘‘ میں لکھتے ہیں : (( بَابُ مَا جآئَ فِیْ وَضْعِ الرُّکْبَتیْنِ قَبْلَ الْیَدَیْنِ فِی السُّجُوْدِ حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ شَبِیْبٍ ، وَعَبْدُ ا للّٰه بْنُ مُنِیْرٍ وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاھِیْمَ الدَّوْرَقِیُّ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْحِلَوانِیُّ ، وغَیْرُوَاحِدٍ قَالُوْا نَا یَزِیْدُ بْنُ ھَارُوْنَ نَاشَرِیْکٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ أبِیْہِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ وَإِذَا نَھَضَ رَفَعَ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ۔ وَزَادَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ فِیْ حَدِیْثِہٖ : قَال: یَزِیْدُ بْنُ