کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 801
إن بھا أناسا یعبدون اللّٰه تعالیٰ ، فاعبداللّٰه تعالیٰ معھم ، ولا ترجع إلی أرضک ، فإنھا أرض سوء ۔ فانطلق حتی إذا نصف الطریق أتاہ الموت ، فاختصمت فیہ ملائکۃ الرحمۃ ، و ملائکۃ العذاب ، فقالت ملائکۃ الرحمۃ: جآء تائبا مقبلا بقلبہ إلی اللّٰه ۔ وقالت ملائکۃ العذاب : إنہ لم یعمل خیرا قط۔ فأتاھم ملک فی صورۃ آدمی ، فجعلوہ بینھم ، فقال: قیسوا ما بین الأرضین ، فإلی أیتھما کان أدنی فھو لہ ، فقاسوا ، فوجدوہ أدنی إلی الأرض التی أراد ، فقبضتہ ملائکۃ الرحمۃ)) (۲؍ ۳۵۹) اصل حدیث صحیح بخاری میں بھی موجود ہے ۔ (۱؍ ۴۹۳۔۴۹۴)اس کے آخر میں لفظ ہیں ’’فغفرلہ‘‘ واللہ اعلم [1] ۷؍ ۱؍ ۱۴۲۴ھ س: کیا عورت اپنے محلہ یا کہیں دوسری جگہ تقریر کی یادرس کی صورت میں تبلیغ کر سکتی ہے؟ آپ قرآن و حدیث کی روشنی سے بمع دلائل جواب دے کر عندا اللہ ماجور ہوں ۔ کیا عورت کا تقریر کرنا کہیں سے ثابت نہیں یا کہ جہالت دور کرنے کے لیے اور علم پھیلانے کے لیے تقریر کرنے کی رُخصت ہے؟ (محمد یعقوب ولد محمد حسین) ج: شرعی حدود کی پابندی میں عورت قرآن و حدیث کی تعلیم و تبلیغ کا کام کر سکتی ہے ۔ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے پاس عورتیں آ کر مسائل دریافت کرتیں تو وہ انہیں بتا دیتیں ، بسا اوقات ان کے دریافت کردہ مسائل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرتیں پھر تعلیم و تبلیغ سے متعلق آیات و احادیث میں عورتیں بھی تبعا مخاطب ہیں نیز دین اسلام مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے تو اس کی تعلیم و تبلیغ بھی دونوں کے لیے ہے ۔ البتہ عورت و مرد دونوں یہ کام بھی شرعی حدودو ہدایات کی پابندی میں کریں گے۔ واللہ اعلم ۱۲؍ ۳؍ ۱۴۲۳ھ س: ہمارے ایک جماعتی جو باقائدہ عالم نہیں ہیں ، انہوں نے بچیوں کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانا شروع کیا ہے ، ہمارے بہت سے جماعتی اس بات کو پسند نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ فتنہ کا ڈر ہے۔ اب پوچھنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ پڑھانے والا پڑھاتا رہے یا جماعتی احباب کی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اُسے روک دیا جائے اور کوشش کر کے کسی مستند عالم کا انتظام کیا جائے۔ ج: جو حالات جناب نے تحریر فرمائے ان حالات میں بہتر یہی ہے کہ آپ بچیوں کی تعلیم کی خاطر کسی مستند عالمہ فاضلہ معلمہ کا انتظام فرما لیں ۔ واللہ اعلم ۱۰؍ ۱۰؍ ۱۴۲۰ھ
[1] صحیح بخَاری؍ کتاب الأنبیاء،باب :۵۴۔ صحیح مسلم؍ کتاب التوبۃ؍ باب قبول توبۃ القاتل ۔