کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 794
شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ان کی اسناد کو حسن کہا ہے۔ التعلیقات الرضیۃ علی الروصۃ الندیۃ /کتاب النذر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نذر اللہ کی اطاعت میں ماننی جائز ہے۔ (شاہد محمود ، مدینہ منورہ) ج: جناب لکھتے ہیں کہ’’آپ فرماتے ہیں کہ نذر اطلاقاً ممنوع ہے اگر مان لے تو پوری کرنی فرض ہے۔‘‘ تو محترم ’’نذر کا اطلاقاً ممنوع ہونا ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے: (( عَنْ عَبْدِ ا للّٰه ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَھَی النَّبِیُّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم عَنِ النَّذْرِ ، وَقَالَ: إِنَّہٗ لَا یَرُدُّ شَیْئًا، وَّ لٰکِنَّہٗ یُسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیْلِ)) [1] [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر سے منع فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ کسی چیز کو واپس نہیں کر سکتی البتہ اس کے ذریعے بخیل کا مال نکالا جا سکتا ہے۔‘‘] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فتح الباری میں لکھتے ہیں : (( وفی قول ابن عمر فی ھذہ الروایۃ: أَوَلَمْ تُنْھَوْا عَنِ النَّذْرِ ، نظر لأن المرفوع الذی ذکرہ لیس فیہ تصریح بالنھی ، لکن جاء عن ابن عمر التصریح ففی الروایۃ التی بعدھا من طریق عبداللّٰه بن مرۃ وھو الھمدانی بسکون المیم عن ابن عمر قال: نھی النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم عن النذر ۔ وفی لفظ لمسلم من ھذا الوجہ: أخَذ رسول اللّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم ینھی عن النذر۔ وجاء بصیغۃ النھی الصریحۃ فی روایۃ العلاء بن عبدالرحمن عن أبیہ عن أبی ھریرۃ عند مسلم بلفظ: لا تنذروا)) ۱ھ (۱۱/۵۷۷) (( وقال الحافظ فی الفتح: وقال الترمذی بعد أن ترجم کراھۃ النذر وأورد حدیث أبی ھریرۃ ، ثم قال: وفی الباب عن ابن عمر: والعمل علی ھذا عند بعض اھل العلم من أصحاب النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم وغیرھم کرھوا النذر ، وقال ابن المبارک : معنی الکراھۃ فی النذر فی الطاعۃ و فی المعصیۃ ، فإن نذر الرجل فی الطاعۃ فوفی بہ فلہ فیہ أجر ، ویکرہ لہ النذر۔ ۱ھ(۱۱/۵۷۸) وانظر لمعنی الکراھۃ عند السلف مقدمۃ تحفۃ الاحوذی))
[1] صحیح بخاری/کتاب الایمان والنذور/باب الوفاء بالنذر۔