کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 791
حقوق العباد میں پورا ہونا ہمارے اس دور میں ناممکن ہے الا ما شاء اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ۱۰۰ قتل کیے تھے پھر اس نے توبہ کا ارادہ کر لیا تو اس کے بعد وہ مر گیا ۔ اور اس کے قتل بھی معاف ہو گئے کیا یہ درست ہے؟ ج: قرآن مجید میں ہے: ﴿إِنَّ ا للّٰه لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ [النساء:۴؍۴۸] [’’یقینا اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دے۔‘‘]یہ تو ثابت ہوا کہ شرک و کفر کے علاوہ تمام گناہ اللہ چاہے تو معاف فرما دے۔ شرک و کفر کے علاوہ گناہوں میں حقوق العباد بھی شامل ہیں ۔ سو قتل سے توبہ کرنے والے کا واقعہ صحیح ہے ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔ مشکاۃ؍ باب الاستغفار والتوبۃ دیکھ لیں ۔[1] ۲۰؍۱۲؍۱۴۲۲ھ س: میری ایک بہو اپنی بہن کی بیٹی ہے اور دوسری بیگانی ،میں دونوں کو دل و جان سے ایک سا سمجھتی ہوں ۔ میرے سلوک کی زیادہ حق دار میری بہن کی بیٹی ہے یا میری بہو حقدار ہے؟ ج: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ((ثُمَّ أَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ)) [2] کی رو سے بھانجی بہو صرف بہو سے حقوق میں فائق و مقدم ہے زیادہ حق رکھتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف بہو کی زندگی اجیرن بنا دی جائے اور اس کے حقوق تک نہ ادا کیے جائیں اور قطع رحمی تک نوبت پہنچا دی جائے ۔ ((فَأَعطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ)) [’’ہر حق دار کو ا س کا حق دے دو۔‘‘]کو ملحوظ رکھاجائے۔واللہ اعلم۔ [ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ تمہاری ماں ۔ پھر تمہاری ماں ، پھر تمہاری ماں ، پھر تمہارا باپ۔ پھر جو تمہارے سب سے زیادہ قریب ہو ، پھر جو تمہارے سب سے زیادہ قریب ہو۔‘‘][3] ۱۵؍۴؍۱۴۲۴ھ ٭٭٭
[1] صحیح بخاری؍کتاب الانبیاء۔آخری باب۔ صحیح مسلم ؍کتاب التوبۃ؍باب قبول توبۃ القاتل۔ [2] صحیح بخاری؍کتاب الأداب ؍باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ ۔ [3] صحیح مسلم؍کتاب البر والصلۃ؍باب برالوالدین وأنھما أحق بہٖ۔