کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 783
تو خلاصہ کلام ہے : ((إِنَّ الشِّعْرَ کَلَامٌ حَسَنُہٗ حَسَنٌ وَقَبِیْحُہٗ قَبِیْحٌ)) [’’شعر ایک کلام ہے اگر اچھا ہے تو بہتر ہے اگر برا ہو تو قبیح ہے۔‘‘][1]البتہ شعر و شاعری کو کتاب وسنت پر غالب نہ کرنا چاہیے۔ س: ((وَعَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم جَالِسًا فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَصَوْتَ صِبْیَانٍ فَقَامَ رَسُوْلُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم فَاِذَا حَبَشِیَّۃٌ تَزْفِنُ وَالصِّبْیَانُ حَوْلَھَا فَقَالَ یَا عَائِشَۃُ تَعَالٰی فَانْظُرِیْ الحدیث)) (مشکوٰۃ:۶۰۴۹۔عشرۃ النساء ، للنسائی:۷۱۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:۳۲۷۷)اور الکامل لابن عدی ۳؍۹۲۱ میں مزید یہ الفاظ ہیں : ((اَنَّ النَّبِیَّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم کَانَ جَالِسًا فَسَمِعَ ضَوْ ضَائَ النَّاسِ وَالصِّبْیَانِ فَتَطَرَ فَإِذَا حَبَشِیَّۃٌ تَزْمِرُ وَالنَّاسُ حَوْلَھَا فَقَالَ یَا عَائِشَۃُ تَعَالَی اُنْظُرِیْ الحدیث)) اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے حسن صحیح غریب اور علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ میں درج کیا ہے۔ تو ان حضرات کا کہنا ہے کہ حبشی عورت کا رقص نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر دکھلایا اور دیگر لوگ بھی اس کے گرد جمع ہو کر دیکھ رہے تھے جب کہ آپ نے انہیں منع نہیں کیا۔ اس حدیث کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ کیا اس سے رقص کرانا اور دیکھنا جائز معلوم ہوتا ہے یا نہیں ؟ امید ہے ضرور راہنمائی کریں گے۔ (ابو الحسن مبشر احمد ربانی) ج: مشکاۃ کی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث:۶۰۴۹ کے آخر میں ہے: ((إِذَا طَلَعَ عُمَرُ، فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْھَا، فَقَالَ رَسُوْلُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم : إِنِیْ لَأَنْظُرُ إِلٰی شَیَاطِیْنِ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ قَدْ فَرُّوا مِنْ عُمَرَ ۔ قَالَتْ: فَرَجَعْتُ)) اور آپ کو علم ہے: ((إِنَّمَا یُؤْخَذُ بِالْآخِرِ ،فَالآخِرُ مِنْ قَولِ النَّبِیِّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم وَفِعْلِہِ، وَإِنَّ مَا فَعَلَہٗ ھُنَارَسُوْلُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم وَصَنَعَہٗ ثُمَّ لَم یَبْقَ بَعْدَ قَوْلِہٖ: إِنِّیْ لَأَنْظُرُ إِلٰی شَیَاطِیْنِ.....الخ مِنَ التَّقْرِیْرِ فِیْ شَیْئٍ.....واللّٰه اعلم)) [’’عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ہم نے شور اور بچوں کی آواز سنی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو کیا دیکھا کہ ایک حبشی عورت رقص کر رہی ہے اور بچے اس کے ارد گرد جمع ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ آؤ اور تم بھی دیکھ لو میں آئی اور ٹھوڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے مبارک پر رکھی اور آپ کے کندھے اور سر کے درمیان سے ( اس عورت کے رقص) کو دیکھنے لگی ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا سیر نہیں ہوئی ہو؟ کیا سیر نہیں ہوئی ہو؟ میں نے کہا: نہیں ۔ یہ اس لیے کہ میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اپنا مقام و مرتبہ دیکھ لوں ۔ ناگہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے ، لوگ انہیں دیکھ کر منتشر ہو گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] رواہ الدار قطنی و اسنادہ حسنٌ ۔ بحوالہ مشکوٰۃ؍کتاب الآداب؍باب البیان والشعر الفصل الثالث۔