کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 778
حدیث ضعیف ہے اور کونسی قوی؟کس کے اوپر عمل ہو سکتا ہے؟ معانقہ اور التزام میں کیا فرق ہے؟ (حافظ محمد فاروق تبسم) ج…آپ نے یہودیوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاؤں چومنے والی روایت کی طرف توجہ دلائی تو : اولًااس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اور کئی دیگر اہل علم نے صحیح قرار دیا جبکہ محدث وقت شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ مشکاۃ کی تحقیق و تعلیق میں لکھتے ہیں : ((وَفِیْ سَنَدِ الْحَدِیْثِ ضُعْفٌ)) پھر انہوں نے اس روایت کو صحیح ترمذی میں بھی درج نہیں فرمایا ، ضعیف ترمذی میں لکھا ہے۔ ثانیاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے فرمایا تھا:((فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ)) [’’میری پیروی سے تمہیں کیا چیز روکتی ہے۔‘‘]تو اس فرمان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو ان تمام اُمور سے منع فرما دیا جن اُمور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت نہیں اور معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت ملاقات تقبیل و بوسہ سے منع فرما رکھا ہے تو ان یہودیوں کے تقبیل و بوسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہیں نافرمانی ہے اس لیے ((فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ)) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس تقبیل و بوسہ سے بھی منع فرما دیا ، اب کے یہ کہنا ’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کرنا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بھی منع کر دیتے…الخ‘‘ درست نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی منع فرما دیا تھا۔ ثالثاً بالفرض تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو تقبیل و بوسہ سے منع نہیں فرمایا تھا تو بھی اس روایت سے تقبیل و بوسہ کے جواز پر استدلال درست نہیں کیونکہ وہ یہودی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت اور منع نہ فرمانا تقریرو تصویب اس وقت قرار پاتا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عمل و قول والا مسلم ہو جیسا کہ اُصول کی کتابوں میں وضاحت موجود ہے اور یہ جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تقبیل و بوسہ کا فعل سر زد ہوا مسلم نہیں یہودی ہیں ، ان یہودیوں ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:((فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ)) کے جواب میں کہا:((إِنَّ دَاؤدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ دَعَا رَبَّہٗ أَنْ لاَّ یَزَالَ مِنْ ذُرِّیَتِہٖ نَبِیٌّ)) [’’بے شک داؤد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ نبی رہے۔‘‘][1]مگر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کی اس بات سے منع نہیں فرمایا تو آیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر و تصویب بنی؟ نہیں کیونکہ وہ یہودی تھے اور مسلم نہیں تھے۔ رابعاً روایت سے واضح ہے کہ تقبیل و بوسہ والے یہودی تھے تو اگر بالفرض اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر و تصویب قرار دینا ہی ہے تو اس سے اتنی بات نکلے گی کہ یہودیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا لہٰذا اگر کوئی
[1] جامع ترمذی؍ابواب الاستئذان والادب؍ باب ما جاء فی قبلۃ الید والرجل۔