کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 753
س: ایک امام مسجد اور خطیب بھی ہے۔ داڑھی کٹواتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ بعض صحابہ کرام بھی داڑھی کٹواتے تھے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔ کیا اس امام مسجد کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟ (محمد علی ، بوپڑہ خورد ضلع گوجرانوالہ) ج: آپ جانتے ہیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔ ‘‘[1] ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں : ’’ مجوسیوں اور مشرکوں کی مخالفت کرو۔ ‘‘[2] اب ظاہر و واضح امر ہے کہ داڑھی منڈانا یا کٹانا خطا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہیں ۔ صحابی رضی اللہ عنہ کا مقام یہ نہیں کہ وہ معصوم ہوتے ہیں ۔ ان سے خطا سرزد نہیں ہوتی۔ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَعَصَیْتُمْ مِّنْم بَعْدِ مَآ أَرَاکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ط﴾ [آل عمران:۱۵۲]،[’’ اور اپنی پسندیدہ چیز نظر آجانے کے بعد تم نے نافرمانی کی۔ ‘‘ ] صحابی رضی اللہ عنہ کا مقام یہ ہے کہ ان کی خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادی ہیں ۔ ﴿وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ ط [آل عمران:۱۵۲]﴾ [ ’’ اور بے شک اللہ نے تمہیں معاف کردیا۔ ‘‘ ] ﴿رَضِیَ ا للّٰه عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط [البیّنۃ:۸]﴾ [ ’’ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ ‘‘ ] الآیہ اس لیے کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کا قول یا عمل دین میں حجت و دلیل نہیں ۔ لہٰذا داڑھی کٹانے والا انسان مستقل امام یا خطیب نہیں بن سکتا۔ ہاں کبھی کبھار نماز پڑھائے یا خطبہ دے تو اس کی اقتداء درست ہے۔ واللہ اعلم۔ ۷ ؍ ۵ ؍ ۱۴۲۱ھ س: بقول آپ اگر داڑھی کا کٹانا خط بنانا وغیرہ کبیرہ گناہ ہے تو مندرجہ ذیل اکابرین پر آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ترمذی والی حدیث میں امام بخاری کا نوٹ عمر بن ہارون کے متعلق کیا ہے؟ ابو داؤد شریف عبداللہ بن عمرؓ کا عمل۔ صحابہ کی گارنٹی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ الشفأ ص:۵۹ از قاضی عیاضؒ داڑھی کٹالینا جائز ہے۔ کیمیأ سعادت ص: ۱۴۶ امام غزالیؒ داڑھی کٹالینا جائز ہے۔ غنیۃ الطالبین ص : ۷۸ شیخ عبدالقادرؒ جیلانی داڑھی کٹالینا جائز ہے۔ صراطِ مستقیم فتویٰ اہل حدیث اوّل ص: ۱۰۶ مولانا محمودؒ احمد برمنگم داڑھی کٹالینا جائز ہے۔
[1] مسلم؍کتاب الطہارۃ؍باب خصال الفطرۃ۔ [2] صحیح بخاری ؍ کتاب اللباس ؍ باب تقلیم الأظفار ، مسلم ؍ کتاب الطہارۃ ؍ باب خصال الفطرۃ