کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 729
ماہنامہ محدث مجلہ کے ایک مضمون پر نظر ’’ محدّث ‘‘ کے ارسال کرنے پر جناب کا شکر گزار ہوں ۔ دل کی گہرائیوں سے دعاء نکلتی ہے، اللہ تعالیٰ اس مجلہ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ نیز آپ کے دیگر دینی کاموں اور ارادوں میں برکت ڈالے۔ آمین یارب العالمین۔ محدّث جلد نمبر: ۳۴ ، صفر ۱۴۲۳ھ کا شمارہ نمبر: ۴ میرے سامنے ہے۔ صرف دو چیزوں کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ (۱) .....صفحہ نمبر: ۲۷ پر لکھا ہے: ’’ اس طرح شیشے اور لکڑی کے تابوت میں لاش کو محفوظ رکھنا بھی سنت اور عمل صحابہ کے خلاف ہے۔ البتہ فرعون مصر اس سے مستثنیٰ ہے۔ کیونکہ قرآن کی رو سے اس کی لاش رہتی دنیا کے لیے نمونہ ٔ عبرت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَـۃً ط﴾ [یونس:۹۲] آج ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو اپنے پیچھے والوں کے لیے نمونہ ٔ عبرت بن جائے۔ ‘‘ اولاً: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَالآیۃ میں جو کچھ بیان ہوا موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نہیں بالفرض ان کی شریعت ہوبھی تو ہماری شریعت میں ’’ شیشے اور لکڑی وغیرہ کے تابوت میں لاش کو محفوظ رکھنے کے سنت کے خلاف ہونے ‘‘ کے دلائل سے منسوخ ہوچکی ہے۔ لہٰذا یہ مستثنیٰ والی بات درست نہیں ۔ ثانیاً: اس آیت کریمہ میں کوئی ایک بھی لفظ ایسا نہیں جس سے نکلتا ہو: ’’ اس کی لاش رہتی دنیا ‘‘ الخ بلکہ فَالیوم کا لفظ ’’ قیامت تک ‘‘ کی نفی کرتا ہے۔ ثالثاً: مصر کے عجائب گھر میں جو لاش پڑی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ فرعون مصر کی لاش ہے وہ دریا سے ملی ہے اور اس کی دریافت پر ابھی سو سال کا عرصہ پورا نہیں ہوا تو آج سے تقریباً سو سال قبل کون شخص تھا جس نے پہچانا کہ دریا سے ملنے والی یہ لاش فرعون مصر کی لاش ہے۔ جس کو موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے انکار کی پاداش میں موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ۱۰ محرم کو اللہ تعالیٰ نے غرق کیا تھا؟ رابعاً: قرآنِ مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نجات بنی اسرائیل کو ملی ہے فرعون اور آل فرعون کو نجات نہیں ملی نہ ان کے بدنوں کو اور نہ ان کی روحوں کو ﴿وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیٓ اِسْرَآئِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ o﴾