کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 726
ج: صحیح بخاری کتاب التفسیر حم الزخرف میں لکھا ہے: (( وَیُقَالُ: أَوَّلُ الْعَابِدِیْنَ الْجَاحِدِیْنَ مِنْ عَبِدَ یَعْبَدُ ۔)) [ ’’ اَوَّلُ الْعَابِدِینَ کے معنی سب سے پہلا انکار کرنے والا یعنی اگر اللہ کی اولاد ثابت کرتے ہو تو میں اس کا سب سے پہلا انکاری ہوں اس صورت میں عَابِدِیْنَ باب عَبِدَ یَعْبَدُ سے آئے گا۔ ‘‘ ]حافظ ابن جریر طبری لکھتے ہیں : (( وَقَالَ آخَرُوْنَ: مَعْنٰی ذٰلِکَ: قُلْ إِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ، فَأَنَا أَوَّلُ الْآنِفِیْنَ ذٰلِکَ ۔ وَوَجَّھُوْا مَعْنٰی الْعَابِدِیْنَ إِلَی الْمُنْکِرِیْنَ الْآبِیْنَ ، مِنْ قَوْلِ الْعَرَبِ: قَدْ عَبِدَ فُلاَنٌ مِنْ ھٰذَا الْأَمْرِ ۔ إِذَا أَنِفَ مِنْہُ وَغَضِبَ ، وَأَبَاہُ فَھُوَ یَعْبَدُ عَبِدَ ۔ الخ)) [ ’’ اور دوسروں نے کہا کہ عابدین کا معنی ہے انکار کرنے والے اور انہوں نے یہ معنی عربی محاورہ سے حاصل کیا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی بات کا انکار کردے تو کہا جاتا ہے قَدْ عَبِدَ فُلاَنٌ مِنْ ھٰذَا الْأَمْرِ ۔پس یہ عَبِدَ یَعْبَدُ باب سے ہے۔ ‘‘ ] س: قرآن میں کئی ایک مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورُسل کے قتل کا تذکرہ کیا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں یہاں سے مراد ارادۂ قتل ہے نہ کہ حقیقی قتل آپ نے وضاحت کے ساتھ دلائل دیتے ہوئے بیان کرنا ہے کہ اصل مؤقف کیا ہے۔ اور بعض علماء بڑے ولولے کے ساتھ حضرت زکریا صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں یحییٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قتل کیا گیا۔ (حافظ امین اللہ) ج: قتل سے ارادۂ قتل مراد لینا مجاز ہے حقیقت نہیں اصول ہے کہ مجاز کے لیے قرینۂ و دلیل کی ضرورت ہے۔ بلادلیل و قرینہ مجازی معنی لینا درست نہیں ۔ مجھے ابھی تک ان مقامات پر قتل سے ارادۂ قتل مراد لینے کی کوئی دلیل و قرینہ نہیں ملے۔ واللہ أعلم۔ ۱۷ / ۱۲ / ۱۴۲۳ھ س: سورۂ البقرۃ کی آیت: ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ أَخْطَاْنَا ط [البقرۃ:۲۸۶] ﴾ [ ’’ اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا۔ ‘‘ ] کا مطلب واضح کریں کہ نسیان اور خطا سے یہاں کیا مراد ہے؟ (فیصل اسلم) ج: کچھ احکام تکلیفی ہوتے ہیں ان کے متعلق اصول ہے: ﴿لَا یُکَلِّفُ ا للّٰه نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا ط [البقرۃ:۲۸۶]﴾ [’’ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ ‘‘ ] اور کچھ احکام وضعی ہوتے ہیں ان کے متعلق اصول ہے کہ وہ لاگو ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَأً وَّمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ط [النسآء:۹۲] ﴾ [ ’’ کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کردینا جائز نہیں مگر غلطی سے ہوجائے۔ جو آدمی کسی مسلمان کو بلاقصد مار ڈالے اس پر ایک مسلمان غلام کی