کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 717
دم لو میں تم سے اس اللہ کی جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ، یہ سن کر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی بولے ، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ۔ اس وقت عمر، علی اور عباس رضی اللہ عنہم کی طرف مخاطب ہو ئے ۔ کہنے لگے: اب میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے ، انہوں نے کہا: بے شک فرمایا ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اب میں اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت میں سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک خاص رعایت رکھی ہے جو اور کسی کے لیے نہیں رکھی۔ پھر سورۂ حشر کی یہ آیت پڑھی: ﴿وَمَآ اَفَـآئَ ا للّٰه عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ .....عَلیٰ کُلِ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾[الحشر:۶] تک تو یہ جائیدادیں (بنی نضیر ، خیبر ، فدک وغیرہ) خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں ۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیدادیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے نہیں رکھیں نہ خاص اپنے خرچ میں لائے بلکہ تم ہی لوگوں کو دیں او رتمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں یہ جو جائیداد بچ رہی اس میں سے آپ اپنی بیبیوں کا سال بھر کا خرچہ لیا کرتے ، بعد اس کے جو باقی رہتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے( جہاد کے سلسلے میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے ۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم !کیا تم یہ نہیں جانتے ؟انہوں نے کہا: بے شک جانتے ہیں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا : تم کو بھی اللہ کی قسم !کیا تم یہ نہیں جانتے؟( انہوں نے کہا: بے شک جانتے ہیں ) پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا: اللہ نے اپنے پیغمبر کو دنیا سے اُٹھا لیا تو ابو بکر صدیق کہنے لگے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہوں اور انہوں نے یہ جائیدادیں اپنے قبضے میں رکھیں اور جو جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمدنی سے کرتے رہے وہ کرتے رہے ، اللہ جانتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سچے ، نیک ، سیدھے راہ پر حق کے تابع تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی اُٹھا لیا ۔ میں ابو بکرکا جانشین بنا ، میں نے اپنی حکومت کے شروع شروع میں دو برس تک ان جائیدادوں کو اپنے ہی قبضے میں رکھا اور جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر کرتے رہے ویسا ہی میں بھی کرتا رہا ، اللہ اس بات کا گواہ ہے کہ میں ان جائیدادوں کی نسبت سچا ، نیک ، سیدھی راہ پر حق کے تابع رہا ، پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے ، تم دونوں ایک تھے ، عباس تم نے یہ کہا کہ میرے بھتیجے کے مال سے میرا حصہ دلاؤ اور انہوں ( یعنی علی رضی اللہ عنہ )نے یہ کہا: میری بی بی کا حصہ اپنے باپ کے مال سے مجھ کو دو ۔ میں نے تم دونوں سے یہ کہا : دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں ، وہ صدقہ ہے ۔ پھر مجھ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ میں ان جائیدادوں کو تمہارے قبضے میں دے دوں ۔ تو میں نے تم سے کہا: دیکھو ! اگر تم چاہو تو میں یہ جائیدادیں تمہارے