کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 716
کو خدمتِ دین کی توفیق اور سعادت دارین سے نوازے۔ ۵؍۹؍۱۴۲۰ھ س:…امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ایک بہن حضوؐر کی زوجہ تھیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی لڑکی یا بہن بیوی تھیں ۔ باغ فدک کا جو مسئلہ ہے وہ سب سے پہلے اُٹھایا جاتا ہے ،میرے علم کے مطابق بطورِ تحفہ یا جزیہ کی صور ت میں آیا تھا وہ ملکیت عالم اسلام کی ہوئی ۔ کیا حضوؐر نے تحفہ کے طور پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو دی تھیں ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مالی طور پر کس قدر غریب و امیر تھے تفصیل سے بتائیں ؟ اور کیا انہوں نے باغ فدک چھین لیا تھا حضوؐر کی بیٹی سے؟ ۲:...امام مہدی جو کہ شیعوں کی نظر میں بارھویں امام ہیں او رہماری نظر میں بارھویں امام کی ولادت ہی نہیں ہوئی کیا امام مہدی قیامت سے پہلے آئیں گے؟ ج:…امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ تھیں ۔ رہا باغ فدک والا مسئلہ تو اس سلسلہ میں آپ صحیح بخاری ؍کتاب فرض الخمس میں مالک ابن اوس بن حدثان والی حدیث کا مطالعہ فرما لیں حقیقتِ حال آپ پر واضح ہو جائے گی ۔ ان شاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔ [مالک نے کہا ایک دن میں اپنے گھر والوں میں بیٹھا تھا جب دن چڑھ گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بلانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا امیر المؤمنین تجھ کو بلاتے ہیں ۔ میں اس کے ساتھ روانہ ہوا ۔ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا وہ ایک تخت پر بوریا بچھائے ایک چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے ، بوریے پر کوئی بچھونا نہ تھا میں نے ان کو سلام کیا اور بیٹھ گیا انہوں نے کہا: تمہاری قوم میں سے چند گھر والے ہمارے پاس آئے ہیں ، میں نے ان کو کچھ تھوڑا سا دلایا ہے ، تم ان کو بانٹ دو۔ میں نے عرض کیا: امیر المؤمنین یہ کام کسی اور سے لیجئے تو بہتر ہے۔ انہوں نے کہا(بھلے) آدمی لے( بانٹ دے) خیر میں انہیں کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں ان کا دربان یرفا آیا اور کہنے لگا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف اور زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آئے ہیں ۔ آپ کی اجازت چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا: آنے دو ۔ خیر وہ آئے ، انہوں نے سلام کیا ، بیٹھے ، یرفا تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر کہنے لگا علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ آئے ہیں ، انہوں نے کہا : آنے دو۔ وہ بھی آئے دونوں نے سلام کیا اور بیٹھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے : امیر المؤمنین میر ااور ان کا ( علی رضی اللہ عنہ ) کا جھگڑا ہے ، فیصلہ کر دیجئے ۔ دونوں صاحب اس جائیداد کے بارے میں جھگڑا کر رہے تھے جو اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نضیر کے مال میں سے دلائی تھی ۔ عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کہنے لگے : ہاں امیر المؤمنین ان کا فیصلہ کرو۔ اور ہر ایک کو دوسرے سے بے فکر کرو ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھہرو!