کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 709
3۔…آپ فرماتے ہیں یزید پر لعنت کرنا ایسے ہی ہے جیسا کسی مسلمان پر ۔(بحوالہ احکام و مسائل جلد۱، ص:۴۸۶) جبکہ یزید کے عہد میں تین واقعات ایسے ہوئے جنہوں نے پوری دنیائے اسلام کو لرزہ بر اندام کر دیا ، پہلا واقعہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہے ، دوسرا واقعہ جنگ حرّہ کا تھا ، تیسرا واقعہ مکہ پر حملہ اور خانہ کعبہ پر سنگباری جس سے کعبہ کی ایک دیوار شکستہ ہو گئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کے ساتھ جو شخص بھی لڑائی کا ارادہ کرے گا اللہ اسے جہنم کی آگ میں سیسے کی طرح پگھلا دے گا ۔ (بخاری ، مسلم) جو شخص اہل مدینہ کو ظلم سے خوف زدہ کرے گا اللہ اسے خوف زدہ کر دے گا ، اس پر اللہ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ، قیامت کے روز اللہ اس سے کوئی چیز اس گناہ کے فدیے میں قبول نہ فرمائے گا ۔ (بحوالہ خلافت و ملوکیت ص:۱۸۲، مودودی صاحب) اس حدیث کی رُو سے تو یزید پر لعنت جائز ہے؟ 4۔…آپ فرماتے ہیں یزید رحمۃ اللہ علیہ حدیث ’’مغفور لھم‘‘ میں شامل ہے کیونکہ اس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا ، مدینہ قیصر سے مراد قسطنطنیہ نہیں بلکہ حمص ہے ، چنانچہ شیخ الاسلام محمد صدر الصدور دہلی شرح بخاری میں فرماتے ہیں :’’ اور بعض علماء کی تجویز یہ ہے کہ ’’شہر قیصر‘‘ سے مراد وہی شہر ہے کہ جہاں قیصر اس روز تھا کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی تھی اور یہ شہر ’’حمص‘‘ تھا جو اس وقت قیصر کا دار السلطنت تھا۔‘‘ واللہ اعلم (بحوالہ یزید کی شخصیت اہل سنت کی نظر میں ۔ ص:۲۷۹، عبدالرشید نعمانی) (محمد یونس شاکر) ج:…1۔یہ الفاظِ حدیث صحیح بخاری کے نہیں ۔ صحیح بخاری میں مدرج ہیں ۔ فتح الباری میں تفصیل دیکھ سکتے ہیں ۔ پھر صحیح بخاری میں ہے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا : ((اِبْنِیْ ھٰذَا سَیِّدٌ ، وَلَعَلَّ ا للّٰه أَنْ یُصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمیْنَ)) [1] [’’میر ایہ بیٹا سردار ہے اور اُمید ہے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں یہ صلح کرادے گا۔‘‘]جس سے ثابت ہوا اس خطا کے باوجود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مسلم ہیں دائرہ اسلام سے خارج نہیں ۔ پھر جب حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے صلح کرلی اور خلافت ہی ان کے حوالہ فرمادی تو یہ خطا بھی دور اور بغاوت بھی کافور ہو گئی تو اب سوال و جھگڑا کا ہے کا؟ 2۔...یہ روایت اگر صحیح ہو تو عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ تعالیٰ کی خطا ہے کیونکہ یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کی ماسوائے عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضی اللہ عنہم کے سب نے بیعت کی ہوئی تھی جن میں بہت سے صحابہ
[1] بخاری؍کتاب فضائل اصحاب النبی؍باب مناقب الحسن والحسین رضی ا للّٰه عنہما۔