کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 704
انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بٹھا دیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے اور لوگوں کو تکبیر سُناتے۔[1]] ۲۵؍۱۰؍۱۴۲۳ھ س: آقا کے لغوی معنی کیا ہیں ؟ کیا یہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ بولا جا سکتا ہے؟ (محمد یونس شاکر ، نوشہرہ ورکاں ) ج:…لفظ آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ مجھے تو کتاب و سنت میں کہیں نہیں ملا۔ [آقا کا لغوی معنی :.....مالک ، خداوند ، صاحب ، خاوند ، حاکم ، افسر ۔ (فیروز اللغات اُردو)] ۲۰؍۷؍۱۴۲۱ھ س:…نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’حضور‘‘ اور ( حضرت) کہہ کر مخاطب کرنا ٹھیک ہے؟ (عبدالغفور شاہدرہ) ج:…اگر اس عقیدہ کی بنیاد پر یہ لفظ بولتا لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بدن مبارک سمیت اِدھر موجود ہیں تو درست نہیں یا کسی اور غلط بنیاد پر اس انداز میں خطاب کرے تو بھی درست نہیں ۔ ۱۴؍۸؍۱۴۲۱ھ س:…نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں ؟ (ابو ضماد ، شیخو پورہ) ج:…امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن بھی اہل بیت میں شامل ہیں ۔ آیت تطہیر: ﴿إِنَّمَا یُرِیْدُ ا للّٰه لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِرَّکُمْ تَطْھِیْرًاo﴾ [الاحزاب:۳۳؍۳۳] [’’اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبیؐ کی گھر والیو! تم سے وہ نجاست کو دور کرے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔‘‘]کا سیاق و سباق اور لحاق تینوں اس بات پر دلالت کر رہے ہیں ۔ ۲۲؍۷؍۱۴۲۱ھ س:…سورۃ الاحزاب اور ہود میں امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اہل بیت میں شامل ہیں جبکہ بریلوی اور اہل تشیع حضرت فاطمہ ، حسن ، حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو صرف اہل بیت مانتے ہیں ۔ ازواج مطہرات کو اس سے خارج کر تے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں ؟(ماسٹر عبدالرؤف) ج:…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن بھی شامل ہیں چنانچہ: ﴿إِنَّمَا یُرِیْدُ ا للّٰه لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِرَّکُمْ تَطْھِیْرًاo﴾[الاحزاب:۳۳] [’’اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبیؐ کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی)گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔‘‘]کا سیاق سباق اور لحاق اس پر دلالت کر رہا ہے ۔ البتہ سورۂ ہود کی آیت : ﴿رَحْمَتُ ا للّٰه
[1] بخاری؍کتاب الاذان؍باب انما جعل الامام لیوتم بہ الرحیق المختوم۔ جمعیت احیاء التراث الاسلامی ص:۴۶۷