کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 701
ایسے تر وتازہ اور پاک و صاف کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل خانہ سے نکلے ہیں اور فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام گھنگھریالے بال والے درمیانہ قد کے تھے۔‘‘] 3۔...کتاب الانبیاء(۱؍۴۸۹) مجاہد عن ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں الفاظ ہیں : ((فَأَمَّا عِیْسٰی فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِیْضُ الصَّدْرِ)) [’’عیسیٰ علیہ السلام نہایت سرخ گھنگھریالے بالوں والے اور چوڑے سینے والے تھے۔‘‘] اور نافع عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں الفاظ ہیں : ((وَأَرَانِی اللَّیْلَ عِنْدَ الْکَعْبَۃِ فِی الْمَنَامِ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ کَأَحْسَنِ مَا تَرٰی مِنْ أُدمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتَہٗ بَیْنَ مَنْکِبَیْہِ رَجِلُ الشَّعْرِ یَقْطُرُ رَأسُہٗ مَائً)) [’’اور میں نے رات کعبہ کے پاس خواب میں ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جو گندمی رنگ کے آدمیوں میں شکل کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل تھا اس کے سر کے بال شانوں تک لٹک رہے تھے ، تھوڑے سے گھنگھریالے بال تھے ، سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔‘‘] تو ان روایات میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ایک روایت میں سبط الرأس کاذکر ہے اور دوسری میں جَعدٌ کا ذکر ہے اور تیسر ی میں رَجلُ الشَّعْرکا ذکر ہے تو تینوں روایات کے ملانے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مسیح صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں میں کچھ جعودت ہے اور کچھ سبوطت۔ چنانچہ صاحب قاموس لکھتے ہیں : ((وَشَعْرٌ رَجِلٌ وَکَجَبَلٍ وَکَتِفٍ بَیْنَ السُّبُوطَۃِ وَالْجَعُوْدَۃِ)) اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے: ’’آدَمُ‘‘اور دوسری میں آیا ہے ’’أَحْمَرُ‘‘ اور تیسری میں آیا ہے: ((إِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ)) ان تینوں روایات کو ملانے سے حاصل یہی ہے کہ سرخی و سفیدی مائل گندمی رنگ کے حامل تھے یا گندمی سرخی و سفیدی مائل رنگ کے تھے ۔ اصل میں تعارض تب ہوتا ہے جب ایک روایت میں جس چیز کا اثبات ہے دوسری میں اسی چیز کی نفی ہو یا ایک روایت میں جس چیز کی نفی ہے دوسری میں اسی چیز کا اثبات ہو۔ مسیح عیسیٰ علیہ السلام کے حلیہ کے متعلق وارد شدہ احادیث کے باہمی متعارض نہ ہونے کو آپ نے جب معلوم کر لیا تو موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ کے متعلق وارد شدہ احادیث کے باہمی متعارض نہ ہونے کو آپ خود بخود معلوم کر لیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ لہٰذا آپ ان احادیث کے الفاظ کو جمع کر یں اور غور فرمائیں مسئلہ حل ہو جائے گا ان شاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔ ۲۷؍۱؍۱۴۲۲ھ س:…جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا ہے تو درود پڑھا جاتا ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کیا درُود کے یہ الفاظ کسی حدیث میں آتے ہیں ؟ (محمد یونس شاکر ، نوشہرہ ورکاں )