کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 698
کتاب الخصائل والفضائل …خصائل و فضائل س:…ہارو ت و ماروت کون تھے؟ فرشتے تھے یا آدمی؟ اگر فرشتے تھے تو اس کی دلیل دیں ، اگر آدمی تھے تو اس کی بھی دلیل دیں اور ان کو سزا کیوں دی گئی اگر آدمی تھے تو ان کو دنیا میں سزا کیوں دی گئی؟ ابن جریر کے حوالہ سے تفسیر ابن کثیر میں جو روایت آئی ہے کہ دومۃ الجندل کی ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور بابل میں دو لٹکے ہوئے لوہے میں جکڑے ہوئے شخصوں کا ذکر کیا ۔ یہ روایت وما اُنزل علی الملکین ببابل ہاروت و ماروت آیت کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے اس روایت کی اسناد کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔ (کلاس اوّل ، دار العلوم محمدیہ ، شیخو پورہ) ج:…حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ الخیر نے مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ کا کلام و دعویٰ اس طرح نقل فرمایا : (( وادعی أن ھاروت و ماروت ملکان أنزلھما اللّٰه إلی الأرض))[’’اور اس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہاروت و ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے زمین کی طرف اُتارا ہے۔‘‘]پھر ان کے اس کلام و دعویٰ پر ان الفا ظ میں تبصرہ فرمایا: ((وھذا الذی سلکہ غریب جدا، وأغرب منہ قول من زعم أن ھاروت و ماروت قبیلان من الجن کما زعمہ ابن حزم))[’’یہ قول زیادہ غریب ہے اور اس سے بھی زیادہ غریب یہ قول ہے کہ ہاروت و ماروت جنوں کے دو قبیلے ہیں جیسا کہ ابن حزم نے خیال کیا ہے۔‘‘] تو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہاروت ماروت کے فرشتے ہونے اور ان کے جن ہونے کی بڑے لطیف انداز میں تردید فرما دی۔ اور اس سلسلہ میں جو مرفوع روایت پیش کی جاتی ہے اس کو متعدد سندوں کے ساتھ نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں : ((فھذا.....یعنی حدیث سالم عن عبداللّٰه بن عمر عن کعب الاحبار.....أصح وأثبت الی عبداللّٰه بن عمر من الاسنادین المتقدمین وسالم أثبت فی أبیہ من مولاہ نافع، فدار الحدیث ورجع إلی نقل کعب الأحبار عن کتب بنی اسرائیل)) [’’پس یہ( سالم کی حدیث عبداللہ بن عمر سے وہ کعب احبا رسے)پہلی دو سندوں کے ساتھ عبداللہ بن عمر سے زیادہ صحیح اور زیادہ ثابت ہے اور