کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 691
﴿قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ ا للّٰه وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ ا للّٰه بِاَمْرِہٖ وَ ا للّٰه لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo﴾ [التوبۃ: ۲۴] ’’اے نبیؐ! مسلمانوں سے کہو کہ اگر تمہارے آباء و اجداد بیٹے ، بھائی ، بیویاں ، رشتہ دار ، کمایا ہوا مال ، وہ تجارت جس میں نقصان کا خوف ہے اور تمہاری پسندیدہ رہائش گاہیں تمہیں اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ پیارے ہیں تو پھر انتظار کرو حتی کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو راہ ہدایت پر نہیں لگاتا۔‘‘ ۱۰ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۴ھ س: کیا جہاد میں قربانی کی کھالیں دی جاسکتی ہیں ؟ (محمد عثمان ، چک چٹھہ) ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو قربانیوں کی کھالوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ [1]اور ’’صدقہ و زکوٰۃ کے مصرف ہیں آٹھ .....سورۂ توبہ کی آیت نمبر ہے ساٹھ۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(( أَوْ غَازٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ)) [’’ مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے۔ علاوہ پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو، دوسرا وہ جو مال کی زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خریدلے۔ تیسرا قرض دار، چوتھا راہِ الٰہی کا غازی مجاہد پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفہ اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو، دے۔ ‘‘ ] [2] س: طاغوت کے لغوی معنی کیا ہیں ؟ کیا موجودہ حکومت طاغوت ہے اس حکومت کے کن کاموں میں ساتھ دینا چاہیے؟ (شاہد سلیم ، لاہور) ج: طاغوت طغی سے بنا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآئُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ o﴾[الحآقّۃ:۱۱] ’’ جب پانی میں طغیانی آگئی، تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھالیا۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَأَمَّا ثَمُوْدُ فَاُھْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ ط﴾[الحاقۃ:۵] ’’ ثمود تو بے حد خوفناک آواز سے ہلاک کردیئے گئے۔‘‘
[1] بخاری ؍ کتاب الحج ؍ باب یتصدق بجلود الہدی [2] ابو داؤد ؍ کتاب الزکاۃ ؍ باب من یجوز لہ اخذ الصدقۃ وھو غنی ، ابن ماجہ ؍ کتاب الزکاۃ ؍ باب من تحل لہ الصدقۃ