کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 690
ثابت قدم رکھے گا۔‘‘ ]نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ إِنْ یَّنْصُرْکُمُ ا للّٰه فَـلَا غَالِبَ لَکُمْ وَإِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَاالَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ م بَعْدِہٖ﴾[الآیۃ][آل عمران:۳؍۱۶۰][’’ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے ، تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے۔‘‘ ] نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَعَدَ ا للّٰه الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ﴾[الآیۃ] [النور:۲۴؍۵۵][تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں ، اللہ تعالیٰ وعدہ فرماچکا ہے کہ انہیں ضرور ملک کا خلیفہ بنائے گا، جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا، جو ان سے پہلے تھے۔‘‘ ] (۳)دائرۂ اسلام میں رہ کر اختلاف کی موجودگی میں مل کر توحید و سنت کی دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ البتہ مل کر توحید و سنت کی دعوت کا کام کرنے والوں سے کوئی صاحب توحید و سنت ہی کو خیر باد کہہ دیں تو پھر وہ توحید و سنت کی دعوت کا کام بھلا کیا کریں گے؟ خواہ توحید و سنت کو خیر باد کہنے والے صاحب اپنے آپ کو اہل حدیث ہی کہلاتے ہوں ۔ ۶ ؍ ۶ ؍ ۱۴۲۱ھ س: کیا والدین کی اجازت کے بغیر جہاد ہوسکتا ہے؟ (محمد عثمان ، چک چٹھہ) ج: مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں آیا ہے: (( اِرْجِعْ اِلَیْھِمَا فَاسْتَأْذِنْھُمَا ، فَإِنْ أَذِنَالَکَ ، فَجَاھِدْ وَإِلاَّ فَبَرَّھُمَا)) [1] [ ’’ ان کی طرف لوٹ جا اور ان سے اجازت طلب کر، پس اگر وہ اجازت دیں تیرے لیے پس تو جہاد کر ورنہ ان سے حسن سلوک کر۔‘‘] تو ثابت ہوا کہ والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہیں جاسکتا۔ [ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے افضل ترین عمل کے بار ے میں سوال کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ نماز ہے۔‘‘اس نے پوچھا: پھر کون سا عمل؟ فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘اس نے عرض کیا: میرے والدین بھی موجود ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں تجھے و الدین کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہوں ۔‘‘ اس نے کہا: اللہ کی قسم! جس نے آپ کو نبی برحق بناکر بھیجا ہے، میں تو ہر حال میں جہاد کروں گا اور والدین کو جہاد کی خاطر چھوڑ دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ پھر تو ہی زیادہ بہتر جانتا ہے۔‘‘[2]
[1] ابو داؤد ؍ کتاب الجہاد ؍ باب فی الرجل یغزُو وابواہ کارہان [2] الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان؍ کتاب الصلاۃ؍ باب ذکر الخبر الدال علی أنّ الصلاۃ الفریضۃ أفضل من الجہاد الفریضۃ۔ فتح الباری نیل الاوطار۔