کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 689
ج: خود کشی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَا تَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ ط﴾[النساء:۴؍۲۹] ’’ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ جس چیز کے ساتھ انسان خودکشی کرے گا، اس کے ساتھ جہنم میں خودکشی کرتا رہے گا۔‘‘[1] اس میں آپ کی پیش کردہ صورت کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ جہاد دشمنانِ اسلام کو تہ تیغ کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ خود کشی کرنے کے لیے۔ ہاں دشمنانِ اسلام مجاہد کو قتل کردیں تو یہ شہادت ہے، بشرطیکہ قتال فی سبیل اللہ ہو۔ [خودکشی حرام اور کبیرہ گناہ ہے، لیکن فدائی کارروائی جائز مستحب اور بعض اوقات فرض ہے۔ تفصیل کے لیے فضیلۃ الشیخ مفتی عبدالرحمن رحمانی حفظہ اللہ کی کتاب ’’ الجہاد الاسلامی ، ص:۴۸۷ ‘‘سے مطالعہ فرمائیں ۔] ۶ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۱ھ س: ہمارے بھائی زیادہ تر یہ بیان کرتے ہیں کہ امت جہاد پر جمع ہوسکتی ہے۔ (۱) کیا بریلوی ، دیوبندی، شیعہ کو جہاد پر جمع کیا جاسکتا ہے؟ (۲)دوسرا مسئلہ غلبہ دین کا طریقہ کار کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ اور اسلاف سے تفصیلی بیان کریں ۔ (۳)کیا بریلوی ، دیوبندی اپنے عقیدے پر جمے رہیں ، ان کے ساتھ مل کر توحید و سنت کی دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے؟ (شاہد سلیم، لاہور) ج: (۱)ہاں ! کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و توحید پر جمع کیا جاسکتا ہے۔ اور کتاب و سنت میں جہاد کا حکم ، جہاد کے احکام اور جہاد کے فضائل تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ۔ (۲)غلبہ دین کا طریقہ یہ ہے کہ ہر مسلم جہاں کہیں بھی ہے حسب استطاعت زندگی کے ہر شعبہ میں ہر موقع و وقت پر کتاب و سنت کی بڑے اہتمام کے ساتھ پابندی کرے اور کتاب و سنت کے احکام اور ان کی ہدایات سے سرِموانحرف نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام اور اہل اسلام کا غلبہ ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ الحنان۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِنْ تَنْصُرُوا ا للّٰه یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ ﴾[محمد:۴۷؍۷][ ’’ اگر تم اللہ کے (دین کی) مدد کرو گے، تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں
[1] صحیح مسلم ؍ کتاب الإیمان ؍ باب بیان غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ