کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 682
﴿ إِنَّ ھٰٓؤُلَآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ ﴾ [الدھر:۲۷] ’’ یہ لوگ فوری ملنے والی چیز کو پسند کرتے ہیں ۔‘‘ ایسا ہر شخص کو پیش آتا ہے، اس لیے کہ انسان کو دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنا پڑتی ہے اور وہ اس سے اپنے ارادوں کی موافقت چاہتے ہیں اور جب وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے عذاب اور تکلیف دیتے ہیں ۔ اور اگر وہ ان کی مرضی کا ساتھ دیتا ہے تو خود عذاب اور تکلیف محسوس کرتا ہے۔ کبھی ان کی طرف سے کبھی دوسروں کی طرف سے، جس طرح کہ کوئی دین دار اور متقی آدمی فاسقوں اور فاجروں کے درمیان آجائے جو اس کی موافقت کے بغیر فسق و فجور نہ کرسکیں ۔ اب اگر وہ موافقت کرے تو ابتداء میں ان کے شر سے محفوظ رہے گا، پھر وہ لوگ اس کے ساتھ توہین و تکلیف کا وہی معاملہ شروع کردیں گے۔ جس سے بچنے کے لیے اس نے ابتداء میں ان کی موافقت کی تھی اور اگر توہین کا یہ معاملہ وہ خود نہ کریں گے تو کوئی دوسرا ایسا کرے گا۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول پر عمل کیا جائے، جسے انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا تھا، لوگوں کو ناراض کرکے جو اللہ کو خوش کرے گا، اس کی کفایت اللہ تعالیٰ کرے گا، اور جو اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرے گا، اسے وہ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ [1] دنیا کے احوال پر غور کرنے سے ان لوگوں میں اس کی بکثرت مثالیں ملیں گی، جو لوگ حکمرانوں اور اہل بدعت کی مدد ان کی سزاؤں سے بچنے کے لیے کرتے ہیں ، جسے اللہ تعالیٰ نفس کے شرور و فتن سے بچالے گا وہ شخص حرام کی موافقت نہ کرکے ان کے ظلم و ستم کو صبر و استقامت سے سہے گا اور دنیا و آخرت میں اچھے انجام سے نوازا جائے گا، جس طرح کہ علمائے کرام اور ان کے پیروکار اچھے انجام کے مستحق ہوئے۔چونکہ مصائب و آلام سے پوری طرح چھٹکارا ممکن نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو تسلی دی، جنہوں نے دائمی اور بڑی تکلیف کے بدلے میں معمولی اور عارضی تکلیف کو اختیار کیا، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿ مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ ا للّٰه فَإِنَّ أَجَلَ ا للّٰه لَاٰتٍ ج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ﴾[العنکبوت:۵] ’’ جو اللہ سے ملنے کی امید رکھے تو اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے والا ہے اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی عارضی تکلیف کا ایک وقت ہے، جو اللہ کی ملاقات سے ختم ہوجائے گا اور اس سے بندہ کو بے حساب لذت حاصل ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے بندہ کو اس ملاقات کی انتہائی قوی امید دلائی ہے، تاکہ اس کے شوق میں بندہ یہاں کی تکلیف کو برداشت کرلے، بلکہ بعض لوگوں کو تو اس کا اشتیاق اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ تکلیف کا احساس
[1] ترمذی؍ أبواب الزھدو اسنادہ صحیحٌ۔ وأخرجہ ابن حبان وسندہ صحیح أیضاً۔