کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 681
’’ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے۔‘‘ انسان کو چاہیے کہ ان آیات کا سیاق اور ان میں بیان کردہ احکام اور عبرتوں کے خزانے دیکھے ، کیونکہ جب انسان کی طرف انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا گیا تو دو باتیں کھل کر سامنے آگئیں ۔ ایک یہ کہ کسی نے کہا ہم ایمان لائے اور کسی نے کہا ہم ایمان نہیں لائے، بلکہ وہ کفر اور برائیوں پر جم گئے۔ اب جس نے آمَنَّا کہا ( کہ ہم ایمان لائے) پروردگار نے اس کا امتحان لیا، اس کی آزمائش کی، کھرے کھوٹے میں امتیاز کرنے کے لیے اسے فتنوں میں مبتلا کردیا اور جس نے کفر اور انکار کیا، وہ یہ نہ سمجھ لے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز کردے گا اور اس پر سبقت لے جائے گا۔ جو شخص رسولوں پر ایمان لائے گا، اسے دشمنوں کی طرف سے مخالفت اور تکلیف کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طرح اس کی آزمائش ہوگی، لیکن جو ان کی اطاعت نہیں کرے گا، اسے دنیا و آخرت میں سزا ملے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو تکلیف کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ فرق یہ ہے کہ مومن کو ابتداء میں تکلیف ہوگی، پھر دنیا و آخرت دونوں جگہ اچھا نتیجہ سامنے آئے گا، اور ایمان سے منہ پھیرنے والے کو شروع میں لذت ملے گی، پھر اسے دائمی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ انسان کے لیے کیا بات بہتر ہے؟ وہ سطوت حاصل کرے یا ابتلاء میں رہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ تب تک اسے تسلط حاصل نہ ہوگا، جب تک کہ اس امتحان (ابتلاء) میں نہ پڑجائے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے اولواالعزم انبیاء کرام کو ابتلاء میں ڈالا، آخر جب انہوں نے صبر کیا تو انہیں سطوت حاصل ہوئی۔ اس لیے کوئی بھی یہ خیال نہ کرے کہ وہ دکھوں سے ضرور ہی محفوظ رہے گا۔ مصائب اور آلام میں مبتلا لوگوں کی عقلوں میں بھی تفاوت ہے۔ سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جس نے تھوڑے سے ختم ہوجانے والے دکھ کے عوض طویل ترین اور دائمی دکھ کو بیچ دیا۔ اور سب سے بڑا بدبخت وہ ہے کہ جس نے طویل ترین اور دائمی دکھ مول لے کر تھوڑا سا ختم ہوجانے والا دکھ بیچ دیا۔ اگر یہ سوال ہو کہ انسان ایسی صورت کیوں پسند کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نقد اور ادھار کا معاملہ ہے نفس ہمیشہ سامنے کی چیز پر جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ کَلاَّ بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ ط﴾ [القیامۃ:۲۰ ، ۲۱] ’’ ہرگز نہیں ، بلکہ تم عجلت والی چیز کو پسند کرتے ہو اور آخرت کی چیز کو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے: