کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 68
ہے۔ اور ادھر اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے کہ: ﴿ وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ ط وَ إِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ ط مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ج وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا o بَلْ رَّفَعَہُ ا للّٰه إِلَیْہِ ط وَکَانَ ا للّٰه عَزِیْزًا حَکِیْمًا o﴾ [النساء:۱۵۷ ، ۱۵۸] ’’…حالانکہ فی الوقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا او ر نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ، ان کے پاس اس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کے پیرو ہیں ، انہوں نے مسیح علیہ السلام کو یقیناقتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔‘‘ عیسائی کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا لہٰذا ( ان کے زعم و خیال کے مطابق) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خود اللہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ ہے۔ قرآن کریم نے اس خیال کی تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَ ا للّٰه کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ o﴾ [آل عمران:۵۹] ’’ اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہو گیا۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک انسان تھے ،جو کھانا کھاتے تھے ۔ اور جو کھانا کھاتا ہے اسے بہر حال پیشاب پاخانہ کی حاجت ہوتی ہے۔ جس کو کھانے ، پینے اور قضائے حاجت کی ضرورتیں مجبور کر دیں وہ کس طرح خدا ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلاَّ رَسُوْلٌ ط قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط وَاُمُّہُ صِدِّیْقَہٌ ط کَانَا یَأْکلُاَنِ الطَّعَامَ ط اُنْظُرْ کَیْفَ نُبَیِّنُ لَھُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنّٰی یُوْفکُوْنَo﴾ [المائدہ:۷۵] ’’ مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا، اس سے پہلے اور بھی بہت رسول گزر چکے ہیں ، اس کی ماں ایک راست باز عورت تھی، اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ،دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں ، پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھر جاتے ہیں ۔‘‘