کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 672
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ تم اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر ( یعنی مدد حمایت دفاع اور بچاؤ کی خاطر) کیوں نہیں لڑتے، جو پکارتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے، جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی دوست بنا اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی مددگار بنا۔‘‘ [النساء: ۷۵] لہٰذا وطن اسلام کا دفاع بھی جہادِ فی سبیل اللہ ہی ہے۔ ] ۲۲ ؍ ۶ ؍ ۱۴۲۳ھ س: کیا فرماتے ہیں علمائِ دین و مفتیان شرع متین کہ موجودہ دور میں کشمیر میں ہونے والی جدوجہد آزادی ’’جہادِ فی سبیل اللہ ‘‘ ہے اور اگر ہے تو کیسے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دورِ حاضر میں ہونے والی جدوجہد آزادی جہادِ فی سبیل اللہ نہیں ہے؟ (عبدالحمید خورشید بن عبدالمجید ، فیصل آباد) ج: ہاں ! جہاد فی سبیل اللہ ہے، سب جانتے ہیں کہ غزوۂ فتح مکہ جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے حلیفوں کی نصرت و مدد کے لیے تشریف لائے تھے۔ واللہ اعلم۔ ۱۷ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۳ھ س: کیا جہادِ کشمیر حقیقی جہاد ہے، نیز کیا اس میں مرنے والے کو شہید کہہ سکتے ہیں ؟ (ماسٹر سیف اللہ خالد، اوکاڑہ) ج: ہاں ! ۷ ؍ ۲ ؍ ۱۴۲۳ھ س: 1۔کشمیر کے موجودہ جہاد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ فرض عین یا فرضِ کفایہ؟ 2۔ان جہادی گروہوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان کے ساتھ شامل ہونا شرعاً فرض ہے؟ 3۔اگر کوئی ان کے ساتھ شامل ہونے کے بعد کسی بھی سبب سے الگ ہونا چاہے تو وہ گنہگار تو نہیں ہوگا؟ 4۔ کیا جہاد اور قتال میں کوئی فرق ہے؟ ایک عالم کہتے ہیں کہ جہاد فرضِ عین ہے، جبکہ قتال فرضِ کفایہ ہے۔ کیا ان کا موقف درست ہے؟ 5۔ایک عالم کہتے ہیں کہ کسی نہ کسی تنظیم سے منسلک ہونا ضروری ہے۔ دوسرے عالم کا موقف یہ ہے کہ ان تمام فرقوں اور گروہوں سے الگ رہنا چاہیے۔ اور حوالہ یہ دیتے ہیں : (( فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرْقَ کُلَّھَا)) ’’ان تمام گروہوں سے الگ رہو۔‘‘ [1]اب آپ بتائیں کس کا موقف درست ہے؟ (ابو الحسین ،جامعہ أبی ہریرہ، رینالہ خورد، ضلع اوکاڑہ) ج: 1۔ جہاد فرض عین ہے بحسب استطاعت اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لَا یُکَلِّفُ ا للّٰه نَفْسًا اِلاَّ
[1] صحیح بخاری ؍ کتاب الفتن ؍ باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ