کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 666
کے امتزاج نے دیگر تمام کو بھی حرام بنا دیا۔ س: آج کل شکار کا ایک طریقہ یہ استعمال کیا جاتا ہے کہ دانوں میں کوئی ایسی چیز ملا دی جاتی ہے جس سے جانور فوراً مرتا نہیں بلکہ بے ہوش ہو جاتا ہے جسے شکاری پکڑ کر ذبح کر لیتے ہیں تو ایسے جانور کا گوشت کھانا حلال ہے یا حرام ؟ جبکہ شکاری ذبح کرنے کے بعد جانور کے پوٹ کو نکال کر فوراً پھینک دیتے ہیں تاکہ زہر سارے بدن میں نہ پھیل جائے۔ (عبدالستار ، نارووال) ج: یہ کام خطرے والا ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔ ۲۱؍۲؍۱۴۲۴ھ س: گھوڑے کا گوشت حرام ہے یا حلال؟ اگر حلال ہے تو پھر اتنے سارے گھوڑے یوں ہی مر جاتے ہیں اور حلال جانور کا گوشت حرام جاتا ہے ۔ اس پر کیوں آج تک علماء نے آواز بلند نہیں کی ؟ کیا وجہ ہے ؟ حالانکہ ایک جانور صحیح نص سے حلال ہے اور پھر اس کو جان بوجھ کر حرام کیا جاتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گوشت کو کھانا منع کیا ہے ؟ اور اگر منع کیا ہے تو کب کیا تھا اور پھر اس کا حکم دیا تو کب دیا؟ اس کی تفصیل لکھ دیں ۔ (محمد بشیر الطیب) ج: گھوڑا حلال ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: ((عَن أَسْمَائَ قَالَت: نَحَرنَا فَرَسًا عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم فَأَکَلْنَاہُ)) [’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گھوڑا ذبح کیا اور اسے کھایا۔‘‘]نیزصحیح بخاری ہی میں ہے : ((عن جابر بن عبداللّٰه قال: نَھَی النَّبِیُّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم یَوْمَ خَیْبَرَ عَنْ لُحُوْمِ الْحُمُرِ ، وَرَخَّصَ فِی لُحُوْمِ الْخَیْلِ)) [1] [’’خیبر کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھوں کے گوشت سے منع کیا اور گھوڑے کے گوشت میں رُخصت دی۔‘‘] امام شوکانی لکھتے ہیں : (( قال الطحاوی: ذھب أبو حنیفۃ إلی کراھۃ أکل الخیل، وخالفہ صاحباہ ، وغیرھما ، واحتجوا بالأخبار المتوا ترۃ فی حلھا ولو کان ذلک مأخوذا من طریق النظر لما کان بین الخیل والحمر الأھلیۃ فرق ، ولکن الأثار إذا صحت عن رسول اللّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم أولی أن نقول بھا مما یوجبہ النظر ، ولا سیما وقد أخبر جابر أنہ صلی ا للّٰه علیہ وسلم أباح لھم لحوم الخیل فی الوقت الذی منعھم فیہ من لحوم الحمر فدل
[1] بخاری؍کتاب الذبائح والصید ؍باب لحوم الخیل۔