کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 655
ہے ۔ صدقہ جائز ہے ، اگر قربانی کرے تو سارا صدقہ کر دے خود نہ کھائے۔ ۳۔ بعض کہتے ہیں کہ سرورِ کونین نے فرمایا ہے: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے تمام عمل موقوف ہو جاتے ہیں ، مگر تین چیزیں مرنے کے بعد بھی فائدہ دیتی ہیں ، کیا ان میں قربانی نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ بھی نیک عمل ہے۔ ۴۔اور کئی حضرات کہتے ہیں کہ آنحضرت کا اپنی اُمت کی طرف سے قربانی کرنے والی حدیث بالکل صحیح ہے۔ اس سے فوت شدہ کی طرف سے قربانی کا جواز ملتا ہے۔ اور اس کا تمام کے لیے کھانا جائز ہے ۔اُمت کے لفظ میں زندہ اور مردہ سب شامل ہیں ۔ جو آپ کے سامنے فوت ہوئے اور جو ابھی پیدا نہیں ہوئے وہ بھی اس میں شامل ہیں ۔ (مولانا محمد داؤد) ج: یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔ ضعیف ہے۔ تعلیق مشکاۃ میں شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ((وَالترمذی (۱؍۲۸۲)وقال: حدیث غریب لا نعرفہ إلا من حدیث شریک۔ قلت: ھو ضعیف لسوء حفظہ ، وشیخہ أبو الحسناء مجہول کما قال الحافظ والذھبی ، ومن ھذا الوجہ رواہ أحمد(۱؍۱۵۰)))۔ ۲۔عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول: ((أَحب إلی أن یتصدق عنہ ، ولا یضحی ، وإن ضحی فلا یأکل منھا شیئًا أو یتصدق بھا کلھا۔‘‘))[1] [امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں : میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے اور قربانی نہ کی جائے اگر کوئی فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرے تو اس سے خود نہ کھائے بلکہ سارا گوشت صدقہ کر دے۔‘‘]درست ہے۔ ۳۔ میت کی طرف سے کسی رشتہ دار کا قربانی کرنا میت کا عمل نہیں ۔ میت کے رشتہ دار کا عمل ہے لہٰذا یہ صورت حدیث: ((اِذَا مَاتَ الاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ إِلاَّ مِنْ ثَلَاثَۃٍ)) [2] [’’جب آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ، ایک صدقہ جاریہ کا ۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اُٹھائیں ، تیسرے نیک بخت بچے کا جو دعا کرے اس کے لیے ۔‘‘] میں شامل نہیں ۔ ۴۔ صاحب مرعاۃ المفاتیح لکھتے ہیں : ((قال شیخنا فی شرح الترمذی: لم اجد فی التضحیۃ عن المیت منفردا حدیثًا مرفوعاً صحیحا ، وأما حدیث علی المذکور فی ھذا الباب
[1] ترمذی؍ابواب الأضاحی؍باب ما جاء فی الأضحیۃ بکبشین۔ [2] مسلم؍کتاب الوصیۃ؍باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہٖ۔