کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 651
اور والدہ بالیقین ہے۔ بہن بھائی بھی ہیں ترکہ ۷۵۷۶۲۶ ہے ۔ ان کے حصے قرآن و سنت کے مطابق تقسیم فرما دیں ۔ ج: محمود = اصل مسئلہ= ۲۴ ــــــ ترکہ=۷۵۷۶۲۶ از اصل از ترکہ بیوی عطیہ =ثمن=(=۳ ۹۴۷۰۳ ( لڑکی تنزیلہ=نصف=(=۱۲ ۳۷۸۸۱۳ باپ عبدالغفار=سدس=(=۴+۱=۵ ۱۵۷۸۳۸ ( ماں بلقیس=سدس=(=۴ ۱۲۶۲۷۱ بہن بھائی=محجوب بحجب حرفان × اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ أَوْدَیْنٍ﴾ [النساء:۱۲][’’اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔‘‘]اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَإِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ﴾[النساء:۱۱][’’ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔‘‘]اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ﴾[النساء:۱۱] [’’ اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے اگر اس ( میت) کی اولاد ہو۔‘‘]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((أَ لْحِقُوْا الْفَرَائِضَ بِأَھْلِھَا فَمَا بَقِیَ فَلِأَوْلیٰ رَجُلٍ ذَکَرٍ)) [1] [’’وراثت مقررہ حصے داروں کو دو اور جو باقی بچے تو رشتہ میں میت کے جو مرد زیادہ قریب ہو اسے دے دو۔‘‘]تقسیم ترکہ کی صورت مندرجہ بالا ہے۔ ۱۹؍۱؍۱۴۲۴ھ ٭٭٭
[1] بخاری؍کتاب الفرائض باب ابنی عم احدھما أخ لام۔ مسلم؍کتاب الفرائض۔ ترمذی؍ابواب الفرائض؍باب میراث العصبۃ