کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 649
سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے ۔‘‘ ] پھر سورۂ نساء کے آخر میں فرمایا : ﴿یُبَیِّنُ ا للّٰه لَکُمْ أَنْ تَضِلُّوْا﴾[النساء:۱۷۶] [’’ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے یہ وضاحت اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو۔‘‘] اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: ﴿یُوْصِیْکُمُ ا للّٰه فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ﴾[النساء:۱۱][’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکوں کے برابرہے۔ ‘‘ ] پھر ارشادِ گرامی ہے : ﴿وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ﴾[النساء:۱۱] [ ’’ اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے ۔ اگر اس (میت)کی اولاد ہو۔‘‘ ] پھر ارشادِ گرامی ہے: ﴿فَـإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ أَوْدَیْنٍ﴾[النساء:۱۲][’’اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔‘‘ ] اور معلوم ہے فرض چھوڑنا جرم ہی ہے۔ رہا میاں بیوی کی باہمی چپقلش والا معاملہ تو اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : ﴿وَالصُّلْحُ خَیْرٌ﴾[صلح بہت بہتر ہے۔[النساء:۱۲۸]] نیز فرماتے ہیں : ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ أَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ أَھْلِھَا﴾[النساء:۳۵] [ ’’اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں سے اور ایک عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرادے گا یقینا اللہ تعالیٰ پورے علم والا پوری خبر والا ہے۔ ‘‘ ] واللہ اعلم۔ س: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد نے وراثت مانگی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (( لَا نُوْرَثُ مَا تَرْکَنَا صَدَقَۃٌ)) [1] ’’ہم و ارث نہیں بنائے جاتے جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ حدیث سنائی تو پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور کلام بھی نہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حدیث کی مخالفت کیوں کی؟ (محمد حسین کراچی) ج: فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اپنی موت تک ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کرنا تو میرے علم میں نہیں لہٰذا آپ اس کا حوالہ ضرور دیں کہ یہ چیز کہاں ہے؟ رہاان کا مطالبۂ میراث تو ان کی معلومات میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث شامل نہ ہونے پر مبنی تھا ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سن
[1] صحیح بخاری؍کتاب الفرائض؍باب قول النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم لا نورث ما ترکنا صدقۃ