کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 647
﴿فَـإِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ﴾ [النساء:۱۱][ ’’ اور اگر بیٹیاں دو سے زیادہ ہیں تو ان کے لیے دو تہائی ترکہ ہے۔‘‘ ] اور جو باقی بچے وہ متوفی کے بھائی کو ملے گا۔ صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( ألْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَھْلِھَا فَمَا بَقِیَ فَھُوَ لِاَوْلیٰ رَجُلٍ ذَکَرٍ)) [1] [’’اصحاب الفرائض کو ان کا حق دے دو جو باقی بچے وہ قریبی مرد کو دے دو۔‘‘ ] متوفی کا لے پالک متوفی کی بیوی کا بھتیجا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت متوفی کے وارثوں میں شامل نہیں ۔ لہٰذا اسے متوفی کی جائیداد منقولہ وغیر منقولہ سے کچھ نہیں ملے گا۔ واللہ اعلم ۔ مسئلہ کی صورت مندرجہ ذیل ہے: متوفی اصل مسئلہ ۲۴ بیوی ثمن (() ۳ دو بیٹیاں ثلثان (() ۱۶ ایک بھائی باقی عصبہ ۵ لے پالک وارث نہیں × × مطلقہ بیوی وارث نہیں × × س: اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس عورت کا نکاح خاوند کی برادری میں سے کسی آدمی سے کروا کر پھر طلاق دی جائے تو کیا وہ اپنے پہلے خاوند کی جائیداد جو مر چکا تھا ا س کی وارث ہو گی یا نہیں جبکہ اس کی اس سے اولاد بھی ہو؟ (محمد شکیل ، فورٹ عباس) ج: عورت اپنے فوت ہونے والے خاوند کے ترکہ میں حصہ دار ہے خواہ بعد میں دوسرے آدمی سے نکاح نہ کرے خواہ نکاح کرے ، پھر دوسرا خاوند خواہ اسے طلاق دے چکا ہو خواہ طلاق نہ دے ، ہر حال میں عورت اپنے متوفی خاوند کے ترکہ میں حصہ دار ہے الا کہ اپنے خاوند سے پہلے فوت ہو جائے یا خاوند متوفی نے اسے طلاق دے رکھی ہو جس کی عدت بھی وفاتِ خاوند سے پہلے ختم ہو چکی ہو یا طلاق رجعی نہ ہو یا نکاح وفات خاوند سے پہلے فسخ ہو چکا ہو یا بیوی وفات خاوند سے پہلے پہلے دائرہ اسلام سے خارج ہو چکی ہو ۔ أعاذھا اللّٰه من ذلک۔ نیز اولاد ہو خواہ نہ ہو بیوی اپنے خاوند کی وارث ہو گی۔ ۱۲؍۱۰؍۱۴۲۱ھ
[1] بخاری کتاب الفرائض ؍باب میراث الولد من أبیہ و أمہ