کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 645
اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اگر کوئی شخص فوت ہو جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔‘‘ ] اور کلالہ اس کو کہتے ہیں جس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا۔ ادھر محمد اقبال کا باپ محمد یعقوب موجود ہے ۔ لہٰذا وہ کلالہ نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( أَلْحِقُوا الْفَرائِضَ بِأَھْلِھَا فَمَا بَقِیَ فَھُوَ لِاَوْلیٰ رَجُلٍ ذَکرٍَ)) [’’شریعت کے مقرر کردہ حصے ان کے مستحق حصہ داروں کو ادا کر دو اور پھر جو باقی بچ جائے اسے سب سے قریبی مرد وارث کو دے دو۔‘‘ [بخاری ، مسلم]اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باپ کی موجودگی میں بہن بھائی وارث نہیں بنتے۔ قصہ مختصر محمد اقبال کی والدہ کی جائیدادسے جو ڈیڑھ لاکھ ملا اس کو اس کی اپنی جائیداد میں شامل کر کے جو کل جائیداد بنے اس کا چوتھا حصہ اس کی بیوی کو باقی تین حصے (()اس کے باپ کو دے دیا جائے بشرطیکہ کوئی وصیت قرض نہ ہو۔ بیوہ کے عدت گزارنے کے بعد شادی کرنے کی وجہ سے اس کو پہلے فوت شدہ خاوند کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ واللہ اعلم ۔ س: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام بیچ اس مسئلہ کے ایک شخص علی محمد فوت ہو گیا ۔ بوقت فوتیدگی اس کے د و پوتے اور دو پوتیوں کے علاوہ اس کا ایک بھتیجا زندہ تھے۔ ارشاد فرمائیں کہ علی محمد متوفی کی وراثت کے حق دار کون کون ہوں گے؟ نوازش ہو گی۔(میاں عبدالحمید کھوکھر) ج: آپ نے لکھا ’’ایک شخص علی محمد فوت ہو گیا ، بوقت فوتیدگی اس کے دو پوتے اور دو پوتیاں کے علاوہ اس کا ایک بھتیجا زندہ تھے ارشاد فرمائیں کہ علی محمد متوفی کی وراثت کے حقدار کون کون ہوں گے۔‘‘ سوال صحیح ، واقع اور نفس الأمر کے مطابق ہونے کی صورت میں جواب مندرجہ ذیل ہے۔ بتوفیق اللّٰه تبارک و تعالیٰ و عونہ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿یُوْصِیْکُمُ ا للّٰه فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ﴾ [النساء:۱۱] [ ’’ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ ] اور معلوم ہے کہ پوتے پوتیاں اولاد میں شامل ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ ا للّٰه یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَلَہٗ أُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ﴾[النساء:۱۷۶] [ ’’آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ خود تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے ، اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے۔‘‘ ] بیٹے یا بیٹے کے بیٹے