کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 644
فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآأَوْدَیْنٍ﴾[النساء:۱۲] [’’ پس اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال سے تمہارے لیے چوتھائی ہے اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئی ہو یا قرض کے بعد۔‘‘] اور باقی تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے درمیان لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ کے حساب سے تقسیم ہو گا کیونکہ وہ عصبہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿یُوْصِیْکُمُ ا للّٰه فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ﴾ [النساء:۱۱] [’’ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘]دادی کے مکان کی مالیت دس لاکھ سے خاوند محمد یعقوب کو ڈھائی لاکھ ، تین بیٹوں سے ہر ایک کو ڈیڑھ لاکھ اور چار بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو پونا لاکھ ملے گا۔ بشرطیکہ قرض و وصیت نہ ہو۔ واللہ اعلم ۲۴؍۴؍۱۴۲۴ھ س: وراثت کا مسئلہ حل کریں ۔ ایک عورت میت ۔ اس کی جائیداد:.....ایک مکان دس لاکھ مالیت کا ۔ ورثاء:.....شوہر ، تین بیٹے (دو زندہ ایک مردہ)، چار بیٹیاں ۔ نوٹ:.....ایک بیٹا ان میں سے فوت ہو گیا ہے ۔ وراثت کی تقسیم سے پہلے یعنی ماں کی وفات کے بعد۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس کی بیوہ عدت کے بعد اب شادی شدہ ہے۔ برائے مہربانی دس لاکھ کی وراثت تقسیم کر دیں ۔ (محمد صارم بن سیف اللہ) ج: اس کا جواب پچھلے سوالنامہ میں گزر چکا ہے البتہ فوت شدہ محمد اقبال کی جائیداد کی تقسیم اس میں نہیں آئی لہٰذا اب وہ لکھی جاتی ہے۔ آپ کی تحریر کے مطابق اس کے وارثوں سے اس کی وفات کے وقت باپ ، ایک بیوہ ، دو بھائی اور چار بہنیں زندہ تھے چونکہ محمد اقبال کی اولاد نہیں اس لیے اس کی بیوہ کو اس کی جائیداد کا ( چوتھا حصہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ﴾ [النساء:۱۲][’’ اور اگر تمہاری اولاد نہیں تو جو تم چھوڑتے ہو اس سے ان ( تمہاری بیویوں ) کے لیے ربع () ہے ۔‘‘] ﴿وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلَالَۃً أَوِمْرَأَۃٌ وَّلَہُ أَخٌّ أَوْ أُخْتٌ﴾ الا یہ [النساء:۱۲] [’’ا ور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو اور اس کا بھائی یا ایک بہن ہو۔‘‘ ]اور باقی اس کے باپ محمد یعقوب کو ملے گا کیونکہ وہ عصبہ ہے اور بہن بھائی محجوب ہیں ان کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ بھائیوں کو میت کے کلالہ ہونے کی صورت میں ترکہ سے حصہ ملتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : کہ دوسرے مقام پر فرمایا:﴿یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ ا للّٰه یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَلَہٗ أُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ﴾ [النساء:۱۷۶] [’’آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ