کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 638
نے وہ پلاٹ جو ذاتی طور پر میں نے خریدا تھا اس کو حویلی بنا لیا ، میں اور میرا بھائی اس گھر میں رہنے لگے جو میرے باپ کی ملکیت تھا ، کچھ عرصہ بعد ہماری زمین سیم زدہ ہو گئی یعنی کاشت کے قابل نہ رہی تو میں وہاں سے نو شہرہ ورکاں شفٹ ہو گیا اور یہاں پر ہی میں نے اپنا کاروبار کیا ۔ اسی دوران میرا بھائی مجھے کبھی زمین کا ٹھیکہ دیتا اور کبھی نہ دیتا میں نے چاہا کہ زمین فروخت کر دوں ، زمین کو ہم نے زبانی تقسیم کیا۔ میں نے اپنے حصے کی زمین کا کسی گاہک سے سودا طے کیا، لیکن میرے بھائی نے ان سے کہا یہ زمین میری ہے آپ ان سے زمین نہ خریدیں اس وجہ سے میرے حصے کی زمین فروخت نہ ہو سکی۔ پھر میں نے اپنے بھائی کی بیٹی زاہدہ دختر رانا امداد علی سے خفیہ سودا کیا ، ساڑھے چھ ایکڑ رقبہ کا سودا کیا اور اس رقبہ کی میں نے رقم بھی وصول کر لی جبکہ رقبہ ابھی تک میرے ہی نام ہے۔ اب میں نے چاہا کہ اپنی بقیہ زمین اور وہ ایک کنال کا رہائشی پلاٹ فروخت کر دوں تو میرے بھائی نے کہا کہ آپ یہ پلاٹ فروخت نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ پلاٹ میرا (رانا امداد علی کا) ہے ۔ ہم نے برادری کی پنچائیت سے اس پلاٹ کا فیصلہ کروایا ۔ پنچائیت نے میرے (رانا مشتاق) حق میں فیصلہ کیا۔ پلاٹ لال لکیر کے اندر ہے ۔ اس وجہ سے اس کا انتقال نہیں ہوتا جس کا قبضہ ہو اسی کا پلاٹ مانا جاتا ہے یہ پلاٹ چونکہ میرا ہے ، میرا بھائی نہ تو قبضہ دیتا ہے اور نہ فروخت کرنے دیتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ میں نے جو رقم اپنی بھتیجی سے زمین کا سودا طے کر کے وصول کی ہے اس رقم سے اپنے پلاٹ کی قیمت وصول کر کے بقیہ رقم کی اسے زمین دے دوں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مجھے اس رقم سے اپنے پلاٹ کی قیمت وصول کرنے کی اجازت ہے؟ ہماری زمین چودہ ایکڑ تھی کچھ زمین اچھی قسم کی تھی اور کچھ زمین ہلکی قسم کی تھی ہم دونوں کی رضا مندی سے یہ طے پایا کہ اچھی قسم کی پونے چھ ایکڑ زمین بڑے بھائی کے حصے میں آئی اور ہلکی قسم کی زمین سوا آٹھ ایکڑ میر ے حصے میں آئی۔ اب ہمارے درمیان اختلاف ہو گیا ہے تو میرا بھائی کہتا ہے کہ آپ کے پاس زمین زیادہ ہے لہٰذا بہن کا حصہ اس سے ادا کریں کیا وہ اس بات میں حق پر ہیں ؟ (رانا مشتاق) ج: آپ کے والد صاحب کی متروکہ جائیداد زمین وغیرہ وصیت و قرض ادا کرنے کے بعد آپ تین بہن بھائیوں اور دیگر وارثوں (اگر ہوں )کے درمیان کتاب و سنت کے مطابق تقسیم ہوگی۔ باقی آپ کا اپنے بھائی کے ساتھ جھگڑا تو اس کا حل یہ ہے کہ آپ اور آپ کے بھائی جن ثالثوں پر اعتماد کرتے ہیں پہلے ان کو تحریر کر دیں کہ جو آپ فیصلہ کریں ہم دونوں اسے قبول کریں گے پھر ان کو اپنے اپنے بیان لکھ کر پیش کریں تو جو وہ ثالث فیصلہ فرمائیں اس کو دونوں بھائی قبول کر لو اور اس پر عمل کرو۔ اللہ تعالٰ ہم سب کو سعادتِ دارین سے