کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 636
دونوں لڑکیوں کو اور دو چار بہنوں کو ملیں گے۔ عائلہ مسئلہ چار سے بنے گا لڑکیوں کا حصہ دو ہے جو دونوں لڑکیوں پر بلا کسر تقسیم ہو رہا ہے جبکہ چار بہنوں کا حصہ دوان پر بلا کسر تقسیم نہیں ہوتا اور چار دو میں توافق بالنصف ہے لہٰذا دو کو عائلہ مسئلہ ۴ میں ضرب دیں گے تو آٹھ تصحیح مسئلہ ہو گا۔ اب تصحیح سے دونوں لڑکیوں کو چار اور چاروں بہنوں کو چار ملیں گے۔ ہر لڑکی کو دو دو اور ہر بہن کو ایک ایک متوفاۃ کے ترکہ کو آٹھ حصوں میں تقسیم فرما کر مندرجہ بالا تفصیل کے ساتھ دونوں لڑکیوں اور چاروں بہنوں میں تقسیم کر لیں ۔ واللہ اعلم ۲۱؍۷؍۱۴۲۱ھ س: گزارش ہے کہ میرے داد جان کے دو بھائی تھے ۔ اللہ دتہ اور اُن سے چھوٹا ابراہیم میرے داد جان اللہ دتہ کے چار بیٹے اور بیٹیاں بھی ہوئیں جبکہ محمد ابراہیم کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ میرے دادا کے بھائی محمد ابراہیم نے اپنی جائیداد میں سے کچھ اپنی بیوی کے نام کر دی۔ محمد ابراہیم کی فوتگی کے کافی سال بعد ان کی بیوی بھی وفات پا گئیں ۔ ان کی وفات کے بعد ان کے میکے والوں کا پتہ کروایا گیا لیکن کوئی نہ ملا۔ بعد ازاں اخبار میں اشتہار شائع کروایا گیا۔ پھر بھی کوئی نہ پہنچا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ میرے ایک تایا زاد اس زمین پر قابض ہیں جبکہ ان کے تین چچاؤں کی اولادیں بھی موجود ہیں ۔ تایا زاد مذکور زمین مقبوضہ پر کوئی بات چیت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ۔ کتاب و سنت کی روشنی میں اس بات کی وضاحت درکار ہے کہ کیا دوسرے تمام چچازاد اس زمین میں برابر کے حقوق رکھتے ہوئے حصہ لینے کے مجاز ہیں یا کہ نہیں ؟ اگر وہ حصہ لینے کے حق دار ٹھہرتے ہیں تو شرعی طور پر تقسیم جائیداد کیسے ہو گی؟ (امۃ الرقیب بنت حاجی محمد بشیر) ج: صورتِ مسؤلہ میں محمد ابراہیم کی بیوی کی زمین اس بیوی کے وارثوں کو ملے گی ۔ محمد ابراہیم کے بھتیجے اور بھتیجیاں محمد ابراہیم کی بیوی کے وارثوں میں نہیں ہیں ۔ ۳؍۱۲؍۱۴۲۲ھ س: ایک باپ کی ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہو لڑکی کا ایک جگہ نکاح کیا جہاں نکاح کیا وہاں لڑکی کے والد کی بیس ایکڑ زمین تھی ، اس نے وہ اپنی خوشی سے اپنی لڑکی کو دے دی اور والد کے نام ہی رہی اور وہ لڑکی اپنے خاوند کو نا اہل جان کر کسی اور آدمی کے ساتھ چلی گئی اور پھر ایک اور بے دین و بدمعاش سے نکاح کیا اور وہ زمین اس لڑکی کے والد نے یہ سمجھ کر کہ زمین تو دی تھی اپنی لڑکی کو جب وہ نہ رہی بلکہ میری عزت کو بھی خاک میں ملا دیا اور نہ لڑکی کا کوئی بچہ بچی تھی اور نہ خاوند کا کوئی بھائی تھا ۔ فروخت کر دی اور جو زمین اپنے گاؤں میں تھی کچھ زمین اپنی بہو کے نام کرادی اور کچھ بیٹے اور پوتوں کے نام لگا دی ۔ اپنے نام ایک مرلہ بھی نہ رہنے دیا اور جب