کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 633
ج: کتاب و سنت کے موافق ہبہ میں صرف والد اپنی اولاد کو ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے ۔ والد کے علاوہ کوئی بھی کسی کو ہبہ کی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لَا یَحِلُّ لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ أَنْ یُّعْطِیَ الْعَطِیَّۃَ ثُمَّ یَرْجِعَ فِیْھَا إِلاَّ الْوَالِدَ فِیْمَا یُعْطِیْ وَلَدَہٗ)) (رواہ احمد والأربعۃ، وصححہ الترمذی ، و ابن حبان والحاکم) [1] [’کسی مسلم مرد کے لیے حلال نہیں کہ عطیہ دے کر واپس لے سوائے والد کے کہ وہ اپنی اولاد کو دیے گئے عطیہ کو واپس لے سکتا ہے۔‘‘]صحیح بخاری میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : (( لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْئِ الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْ ھِبَتِہٖ کَالْکَلْبِ یَقِیْئُ ، ثُمَّ یَرْجِعُ فِیْ قَیْئِہِ)) [2] [’’ہمارے لیے اس سے بری مثال اور کوئی نہیں کہ جو شخص اپنے ہبہ کو دے کرواپس لیتا ہے وہ اس کتے کی مانند ہے جو خود ہی قے کرتا ہے اور پھر اپنی قے کو کھا جاتا ہے ۔‘‘] کتاب و سنت کے مخالف ہبہ میں ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینا ضروری ہے کیونکہ کتاب و سنت کی مخالفت معصیت و گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ یَّعْصِ ا للّٰه وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ﴾[النساء:۱۴][ ’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے آگے نکلے اسے و ہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘ ] صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے : (( عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ أَنَّ أَبَاہُ أَتٰی بِہٖ رَسُوْلَ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم ، فَقَالَ : إِنِّیْ نَحَلْتُ! اِبْنِیْ ھٰذَا غُلَامًا کَانَ لِیْ فَقَالَ رَسُوْلُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم : أَکُلَّ وَلَدِکَ نَحَلْتَہٗ مِثْلَ ھٰذَ؟ فَقَالَ : لَا : فَقَالَ رَسُوْلُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم : فَاَرْجِعْہُ)) [3] [’’ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک آپ کے باپ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو غلام عطیہ دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو واپس لے لے۔ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔‘‘] صورتِ مسؤلہ والا ہبہ کتاب و سنت کے مخالف ہے کیونکہ قران مجید میں ہے : ﴿لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ
[1] ابو داؤد؍کتاب الھبۃ؍باب الرجوع فی الھبۃ۔ نسائی؍کتاب الھبۃ؍باب رجوع الوالد فیما یعطی ولدہ۔ ترمذی؍ابواب الولاء والھبۃ؍باب ما جاء فی کراھیۃ الرجوع فی البھۃ [2] بخاری؍کتاب الھبۃ وفضلھا والتحرض علیہا؍باب لا یحل لأحد ان یرجع فی ھبتۃ وصد قتہ [3] صحیح بخاری؍کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیہا؍ باب الاشھاد فی الھبۃ