کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 626
نمبر 1 کی کوئی مناسبت نہیں کیونکہ والد نیاز صاحب کی جائیداد تقسیم نہیں ہوئی بلکہ تین بیٹوں (مقصود ، مقبول اور قیوم)اور والد نیاز صاحب کی مشترکہ کمائی کو الگ الگ کیا گیا ہے۔ ۲:…اگر ۲۴ لاکھ نیاز ، مقصود ، مقبول اور قیوم چاروں کی کمائی ہے ، ایوب ،اعظم اور ندیم اس ۲۴ لاکھ کمانے میں شریک نہیں تو پھر یہ تقسیم درست ہے بشرطیکہ چاروں کی کمائی برابر ہو یا اس تقسیم پر چاروں باہم رضا مند ہوں ۔ ۳:…اگر اعظم صاحب ۲۴ لاکھ کمانے میں بالکل شریک نہیں تو ان کا مقصود ،مقبول اور قیوم کے ۲۴ لاکھ سے حصص میں کوئی حق نہیں ، نہ والد صاحب کی زندگی میں اور نہ والد صاحب کی وفات کے بعد ۔ الا وہ کتاب و سنت کی رو سے ان کا وارث بنتا ہو۔ ہا ں اس ۲۴ لاکھ سے والد صاحب نیاز کے حصہ چھ (۶)لاکھ میں بیٹا ہونے کے ناطے اعظم صاحب کا دوسرے بیٹوں کے برابر حق ہے بعد از وفات والد اور قبل از وفات والد بھی اگر والد زندگی میں اپنے حصہ کو بطورِ ہبہ و عطیہ اپنی ۔اولادوغیرہ میں تقسیم کرے۔ باقی اعظم صاحب کی قتل والی بات کی شریعت میں کوئی وجہ جواز نہیں ۔ ۴:.....صورتِ مسؤلہ میں والد نیاز صاحب کی جائیداد تو تقسیم ہوئی ہی نہیں اس لیے اگر یہ تقسیم غلط ہے .....الخ سوال بنتا ہی نہیں ۔ ۵:…مندرجہ بالا جوابات کے ضمن میں بیان ہو گیا ہے۔ ۱۷؍۳؍۱۴۲۴ھ س: میت میراں بخش ولی محمد اسماعیل فتح محمد عطا ء اللہ ثناء اللہ لڑکی لڑکی لڑکی فریق اوّل اسماعیل نے اپنی زندگی میں ہی اپنی دو لڑکیوں میں بحصہ برابر انتقال کروا دیا ہے۔ فریق ثانی فتح محمد کی اراضی ان کی وفات کے بعد حکومت نے ( ان کی حقیقی لڑکی کو دیا اور باقی (فریق اوّل کی دو لڑکیوں میں بحصہ برابر تقسیم کر دیا۔