کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 625
س: ہمارے گاؤں میں ایک والد نے اپنی جائیداد کی تقسیم اس طرح کی ہے: نیاز (والد ) ایوب مقصود مقبول اعظم قیوم ندیم (سب سے بڑا ) (سب سے چھوٹا) ایوب صاحب نے ایم اے کیا ، شادی کروائی اور علیحدہ ہو گئے ، انہوں نے جائیداد سے کچھ نہیں مانگا۔ مقصود ، مقبول ، نیاز (والد) نے کمائی کی اور تقریباً ۲۴ لاکھ روپے کی جائیداد بنائی۔ اعظم صاحب نے جو کچھ کمایا وہ انہوں نے والد صاحب سے لے لیا۔ اس کا کھاتہ یہ ہے کہ نہ وہ گھر والوں سے کچھ لیتا ہے اور نہ ہی ان کو کچھ دیتا ہے ۔ قیوم صاحب کی نظر بہت کمزور ہے اور مقصود صاحب کے ساتھ دکان کرتے ہیں ۔ اب ۲۴ لاکھ روپے کی جائیداد کے ۴ حصے ہوئے۔ ایک حصہ مقبول کا ، ایک حصہ مقصود کا ، ایک حصہ والدین کا ، ایک حصہ قیوم کا۔ ایوب صاحب نے نہ ہی مطالبہ کیا اور نہ ہی اس کو حصہ دیا گیا۔ اعظم اور ندیم کو حصہ اس لیے نہیں ملا کہ انہوں نے چونکہ کمایا نہیں ہے اس لیے ان کا حصہ نہیں ہے ۔ اب سوالات یہ ہیں : ۱:…کیا شریعت میں والد کی وفات سے پہلے جائیداد کی تقسیم ہو سکتی ہے؟ ۲:…کیا یہ تقسیم جو ہوئی ہے یہ صحیح ہے ؟ ۳:.....اعظم صاحب کا دعویٰ ہے کہ بڑے بھائی مقصود سے والد کی وفات کے بعد میں جائیداد چھین لوں گا ، اس لیے کہ اس میں میرا بھی حصہ ہے اور اس راستے میں اگر مجھے (معاذ اللہ) قتل کرنا پڑا تو بھی میں کروں گا ، اپنا حق لینے کے لیے ۔ کیا ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے؟ ۴:.....اگر یہ تقسیم غلط ہے تو والد صاحب کے لیے اس کی کیا سزا (اُخروی) ہے؟ ۵:.....تقسیم کا صحیح طریقہ کار کیا ہے؟ تفصیلاً جواب لکھیں ، جزاکم اللّٰه خیراً (نوٹ :.....ایوب سب سے بڑا ہے اور ندیم سب سے چھوٹا ہے۔) (ابو دجانہ ندیم ، مرکز طیبہ مرید کے) ج: ۱:.....ہبہ اور عطیہ کی صورت میں ہو سکتی ہے بشرطیکہ کچھ وارثوں کو محروم کرنا مقصود نہ ہو اور اولاد میں بطورِ ہبہ و عطیہ تقسیم کرتے وقت لڑکی کو لڑکے کے برابر دیا جائے۔ سوال میں تقسیم کی ذکر کردہ صورت کے ساتھ اس