کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 623
میں نے ان کے نام کر دیا ۔ اور اپنی حصہ داری سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے۔ مثال کے طور پر وہ مال یا جائیداد جس سے منافع ہو رہا ہو تو وہ ان ہی کا ہے۔ کیونکہ بچے چھوٹے ہیں جب وہ بالغ ہو ں گے اور بالغ ہونے کی صورت میں فرض اور واجب عائد ہوتا ہے ۔ یعنی زکوٰۃ وغیرہ جو بھی دینی ہو گی بالغ ہونے کے بعد دیں گے۔ آیا یہ مسئلہ صحیح ہے یا میں ان کی ملکیت کی زکوٰۃ دوں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو ان کا پیسہ کام میں لے لوں ، ایسا ہو سکتا ہے ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں مہربانی ہوگی۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے ۔ (ابو عبدالباسط ، سکھر) ج: انسان اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر سکتا ہے لیکن اولاد کا حصہ برابر برابر ہو گا۔ ﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ﴾ [النساء:۴۔۱۱][’’ایک لڑکے کاحصہ دو لڑکوں کے برابر ہے۔‘‘] والا اُصول اس صورت میں نہیں ۔ وہ صرف وفات کے بعد جائیداد تقسیم کی صورت میں ہے۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس بات پر دلالت کررہی ہے۔ [سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک آپ کے باپ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو غلام عطیہ دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو اس سے بھی واپس لے لے۔ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ ] [1] بچے چونکہ چھوٹے ہیں اس لیے ان کے مال میں آپ معروف طریقے سے تصرف کر سکتے ہیں ۔ ان کے مال میں زکوٰۃ بھی ہے ، وہ آپ ان کے مال سے اد ا کریں گے اور اس کا حساب رکھیں گے جیسے آمد و خرچ کا حساب رکھتے ہیں ۔ س: ہماری پھوپھی جس کی چار (۴)ایکڑ زمین ہے ، اس نے اپنی زندگی میں ایک بھائی کو دو (۲)ایکڑ زمین دے دی تھی اور دو (۲)ایکڑ کے متعلق اس نے وصیت کی تھی کہ یہ زمین میرے بھتیجوں کی ہے ، جو دوسرے بھائی سے ہیں اور وہ فوت ہو چکا ہے ۔ جو بھائی زندہ ہے اس نے چار (۴)ایکڑ (مکان اور ٹیوب ویل)پر قبضہ کر لیا ہے اوراپنے بھتیجوں کو کچھ نہیں دیا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں اس مسئلہ سے آگاہ کریں تاکہ ہم اپنے چچا کو دکھا سکیں ۔(منیر احمد جٹ ، قلعہ میاں سنگھ، گوجرانوالہ) ج: آپ کی تحریرمیں جناب کی پھوپھی کے وارث صرف دو بھائی لکھے گئے ہیں ، ان میں سے بھی ایک بھائی پھوپھی کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا ، لہٰذا وہ پھوپھی کا وارث نہیں ۔ تو آپ کے بیان کے مطابق آپ کی
[1] صحیح بخاری؍کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیہا؍باب الھبۃ للولد