کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 621
عام کاروبار سے مشابہت کا مغالطہ گولڈن کی انٹر نیشنل والے یہ کہتے ہیں کہ جس طرح عام کمپنیاں اپنے ڈسٹری بیوٹر،ہول سیلرر یٹیلر کو کمیشن؍منافع دیتی ہیں اسی طرح وہ بھی اپنے ممبر،سپروائزر،مینجر،ڈائریکٹر وغیرہ کو کمیشن دیتے ہیں ،البتہ یہ سب صارف ہی ہوتے ہیں جنہیں یہ کمیشن ملتا ہے۔اس لحاظ سے یہ عام کمیشن کے کاروبار سے ملتا جلتا ہے اور اس میں کوئی غیر شرعی بات نہیں حالانکہ وہ محض مغالطہ ڈال رہے ہیں ۔عام کمپنیوں کے کاروبار میں ایک بار کمپنی ہول سیلر کو جب اپنا مال دیتی ہے تو اس کو اصل قیمت پر جتنا کمیشن دینا ہوتا ہے،دے دیتی ہے۔اس کے بعد ہول سیلر بھی ریٹیلر سے اصل قیمت پر جتنا کمیشن چاہتا ہے لے لیتا ہے،لیکن پھر ایسا نہیں ہوتا کہ ریٹیلر جس قیمت پر چیز بیچے تو اس کو ملنے والے منافع؍کمیشن میں اس کے اوپر ہول سیلر،ڈسٹری بیوٹریا کوئی اور شریک ہو جن کے توسط سے اسے نیچے تک مال ملا ہو جب کہ گولڈن کی انٹر نیشنل کے طریقہ کاروبار میں پہلا ممبر آخری ممبر کے منافع؍کمیشن میں بھی شریک ہوتا ہے حالانکہ پہلے ممبر نے آخری ممبر پر عموماً محنت نہیں کی ہوتی ہے۔وہ دوسروں کی محنت کے منافع میں شریک ہوتا ہے۔اس لیے’’گولڈن کی‘‘کا طریقہ کاروبار کسی طرح بھی عام شرعی تجارتی طریقہ نہیں ۔ پیرامڈسیل کا طریقہ پہلے بھی کئی غریب ملکوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔ (ماہر معاشیات منظور احمد) جناب منظور احمد یورپ میں مختلف کمپنیوں کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور معاشی واقتصادی معاملات اور باریکیوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ایک ملاقات میں گولڈن کی اور ایسی دوسری کمپنیوں کے طریقہ کاروبار پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ سراسر سود اور جوئے کی شکلیں ہیں جو دنیا کے کئی ملکوں میں بھی بروئے کار رہی ہیں ۔انہیں (Pyramind sales)یعنی مخروطی طریقہ فروخت کہا جاتا ہے جس میں ممبران کی بیس(Base) جس قدر بڑھتی ہے،اوپر اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ان سکیموں کا زیادہ تر نشانہ ترقی پذیر اور غریب ممالک ہوتے ہیں ۔البانیہ انہی کی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا تھا کیونکہ ان سکیموں میں لوگوں کی بہت زیادہ رقوم غیر ضروری چیزوں کی فروخت کے نام پر ان کمپنیوں کے پاس جمع ہو جاتی ہیں ۔لوگ زیادہ کمیشن کے لالچ میں یہ غیر ضروری چیزیں کافی مقدار میں خرید لیتے ہیں اور اس آس میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ملک کی اصل ترقی وتجارت بری طرح متاثر ہوتی ہے،ان سے مسلمانوں کو ہر صورت ہوشیار رہنا چاہیے اور بچنا چاہیے۔ ٭٭٭