کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 614
’’اے ایمان والو!تم اپنے اموال باطل وحرام طریقہ سے نہ کھاؤ۔ ‘‘ ﴿یٰٓأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا ا للّٰه وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْآ اَمَانَتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْن﴾ [الانفال ۲۷] ’’اے ایمان والو!نہ تم خیانت کرو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)سے اور نہ خیانت کرو امانتوں میں اور تمہیں اس کا علم ہے۔‘‘ مندرجہ بالا کا روبار میں خیانت در امانت بھی ہے اور اکل المال بالباطل ’’ناجائز طریقہ سے مال کھانا‘‘بھی ہے کہ اگر دوائی کا خریدار مقررہ مدت میں مطلوبہ ممبر فراہم نہ کر سکا تو اس کی رقم ڈوب جائے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کے پکنے اور تیار ہونے سے پہلے پھل دار درخت کا سودا کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ((ارایت ان منع اللّٰه الثمرۃ بم یاخذ احدکم مال اخیہ)) [1] ’’ذرابتاؤ اگر اللہ نے پھل کو روک لیا یعنی اس پر کوئی آفت آگئی یا کیڑا وغیرہ لگ گیا اور وہ پکنے سے پہلے ہی ضائع ہو گیا تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس بنیاد پر لے رہا ہے۔‘‘ [بخاری ،ج۱،ص۲۹۳]صحیح مسلم میں ہے :((لوبعت من اخیک ثمرا فاصابتہ جائحۃ فلا یحل لک ان تاخذ منہ شیئا بم تاخذ مال اخیک بغیر حق)) [2]علاوہ ازیں یہ دھوکہ اور مجبوری کا سودا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے سودے سے منع فرمایا ہے: ((عن علی قال نہی رسول اللّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم عن بیع المضطر وعن بیع الغرر)) [3]’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبوری کی بیع سے منع فرمایا اور دھوکہ کی بیع سے بھی منع فرمایا۔ ((عبداللّٰه بن عمر رضی ا للّٰه عنہما قال نہی رسول اللّٰه عن بیع الحصاۃ وبیع الغرر)) [4] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری(پانسے)کی بیع سے اور دھوکا کی بیع سے منع فرمایا۔‘‘ ۴۔اور اسراف مت کرو۔بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسراف یہی ہے کہ عام استعمال کی چیزیں مارکیٹ میں سستی موجود ہونے کے باوجود مذکورہ کمپنی سے محض کمیشن کے لالچ میں مہنگی خریدی جائیں جب کہ ان کی دوائی نما چیزوں کی اعلیٰ کوالٹی کی تصدیق کوئی مستند وماہر طبیب بھی نہ کرتا ہو۔
[1] بخاری؍ کتاب البیوع؍ باب اذا باع الثمار قبل ان یبدو صلاحھا [2] مشکوۃبحوالہ ۲۴۷،مسلم؍ کتاب البیوع؍باب وضع الجوائح [3] ابوداؤد ؍کتاب البیوع ؍باب فی بیع المضطر [4] مسلم ؍کتاب البیوع ؍باب بطلان بیع الحصاۃ والبیع الذی فیہ غرر