کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 613
کے تحت یہ سود ہے ۔یہ وہی روش ہے جو نبی اکرم ؐ کے دور کے سود خوروں نے اختیار کی تھی اور کہا تھا کہ ﴿اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا﴾’’بیع سودہی کی طرح ہے۔‘‘(البقرۃ۲۷۵) کہ انہوں نے اپنے سودی لین دین کو اسلامی طرز تجارت سے تشبیہ دینے کی کوشش کی تھی جس کے جواب میں قرآن نے کہا: ﴿وَاَحَلَّ ا للّٰه الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾[البقرۃ:۲۷۵]’’اللہ نے (اسلامی طریقہ پر) تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘ مزید برآں اپنے پرُاسرار طریقہ کار کی بناء پر اگر یہ کاروبار صراحاً سودی نظر نہ بھی آئے تو اس میں سود کا شائبہ ضرور ہے،اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ((فدعوا الربوا والربیۃ))’’سود اور شک والی چیز کو چھوڑدو۔‘‘[1] ۲۔کاروبا ر کی یہ شکل اصطلاح میں بیع النجش کہلاتی ہے جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔((عن ابن عمر قال نہی النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم عن النجش)) [2]ترجمہ:’’نجش کی بیع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔‘‘ نجش کی تعریف یہ ہے کہ (( ھو ان یزید فی الثمن لارغبۃ بل لیخدع غیرہ))(مجمع البحار) یعنی اس میں گاہک کسی چیز کی قیمت اس لیے بڑھ چڑھ کر نہیں لگاتا کہ اسے اس چیز کے خرید نے میں دلچسپی ہے بلکہ محض اس لیے کہ اس طرح دوسروں کو دھوکہ دے اور اس کاروبار کے جال میں پھنسائے ۔امام بخاری نے اس پر باب منعقد کیا ہے کہ ((باب النجش ومن قال لا یجوز ذالک البیع))پھر صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیاہے ۔فرماتے ہیں : ((وقال ابن أبی أوفی الناجش اکل الربوا خائن وھو خداع باطل لا یحل قال النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم الخدیعۃ فی النار ومن عمل عملا لیس علیہ امرنا فہو رد)) [3] ’’عبداللہ بن ابی اوفیٰ فرماتے ہیں ،بیع نجش کرنے والا،سود کھانے والا،خائن ہے اور وہ دھوکہ دینے والا باطل ہے۔حلال نہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دھوکہ دینے والا جہنم میں ہو گا اور جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں وہ عمل مردود ہے۔‘‘ ۳۔قرآن کا ارشاد ہے: ﴿یٰٓأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَا طِلِ﴾ [النساء :۹۲]
[1] سنن ابن ماجہ ؍کتاب التجارات ؍باب التغلیظ فی الربا [2] صحیح بخاری؍ جلد اوّل،ص۲۸۷،بخاری ؍کتاب البیوع ؍باب النجش ومن قال لایجور ذالک ،مسلم؍کتاب البیوع ؍باب تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ وسومۃ علی سومۃ] [3] صحیح بخاری ؍جلد اوّل ،ص۲۸۷