کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 61
ایک عقل مند آدمی کے لیے کیا یہ سارا نظام اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ’’ الہادی سبحانہ و تعالیٰ‘‘ کی کاری گری اور صفات کا کرشمہ ہے؟ کون ہے جو درخت کے پتوں کو آ کر کہتا ہے کہ تم تنے یا شاخ پر آپس میں ایک دوسرے سے دور دور ہو کر نکلو؟ ہوتا یوں ہے کہ جب پہلا پتا ایک طرف نکلتا ہے تو دوسرا پتا ٹہنی کی دوسری طرف جا نکلتا ہے۔ اور کون ذات ہے جو سورج ،چاند ،ستاروں کو راہنمائی دیتی ہے؟ اور دور دور تک سفر کرنے والے پرندوں کو ان کے اصل وطن تک راستہ دکھاتی ہے؟ توجہ سے سن لو ، اس ذات کا نام ’’الہادی سبحانہ و تعالیٰ‘‘ ہے۔ ﴿الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی oوَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی o﴾ [الاعلی:۲،۳] ’’جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔‘‘ جس نے بالی ، بیج اور پتے کو راہ دکھائی ہے اسی ذات نے انسان کو کامل و مکمل ہدایت سے سرفراز کیا ہے۔ چنانچہ اس نے انسان کی ہدایت کی خاطر رسولوں کو مبعوث فرمایا اور ہدایت کے راستے شاہراہ عام کی طرح اس کے سامنے کھول کر رکھ دئیے۔ جس آدمی نے دل کی گہرائیوں سے مان لیا کہ اللہ ہی ہادی و حکیم ہے، وہ آدمی ایسے نظرئیے کو قطعاً قبول نہیں کر سکتا جو اللہ کی ہدایت سے ٹکراتا ہو۔ وہ تو نعرہ لگائے گا: ﴿قُلْ إِنَّ ھُدَی ا للّٰه ھُوَالْھُدٰی o﴾ [الأنعام:۷۱] ’’ببانگ دہل کہہ دو : حقیقت میں صحیح راہنمائی تو صرف اللہ ہی کی راہنمائی ہے۔‘‘ اَلْحَافِظُ : خطرات سے حفاظت کرنے والی ذات: جب تم ماں کے پیٹ میں پرورش پا رہے تھے،جس ذات نے اس وقت تمہاری حفاظت کی ، وہی ذات سر کی مضبوط ہڈیوں کے خول میں نازک و لطیف دماغ کی حفاظت کرتی ہے۔ وہی ذات ابرو،ناک اور رخسار کی ہڈیوں کے درمیان آنکھ کی حفاظت کرتی ہے اور سینے کی ہڈیوں کے جال میں دل اور پھیپھڑوں کی حفاظت کرتی ہے۔ وہی ذات تو ہے جو تمہاری ساری زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ اس نے خوراک، پانی ہوا، روشنی اور گرمی وغیرہ کے اسباب زندگی فراہم کیے ہیں ۔ اس نے تمہاری یہ ذمہ داری نہیں لگائی کہ تم خود ہی سوتے جاگتے اپنے جسم میں ہوا داخل بھی کرو اور نکالوبھی ۔ اگر صرف یہی ایک ذمہ داری لگ جاتی تو تم ہوا کو اندر داخل کرنے اور