کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 601
اور یہ بھی فرمایا: ((اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ بَابًا أَیْسَرُھَا اَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہٗ))[1] (الجامع الصغیر:۳۵۴۱) ’’سود کے ستر دروازے ہیں ، سب سے معمولی دروازہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنی والدہ سے نکاح کرلے۔‘‘ تیسری وجہ: .....اس سکیم کو بیع تسلیم بھی کر لیں تب بھی سود ہے کہ اس میں زیادہ پیسوں کی کم پیسوں کے ساتھ بیع کی جاتی ہے اور وہ بھی اُدھار۔ صحیح بخاری اور مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: [2] (( لَا تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ اِلاَّ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَلَا تُشِفُّوْا بَعْضَھَا عَلیٰ بَعْضٍ وَلَا تَبِیْعُوْا الوَرِقَ بِالْوَرِقِ اِلاَّ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَلَا تُشِفُّوْا بَعْضَھَا عَلَی بَعْضٍ وَلَا تَبِیْعُوْا مِنْھَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ)) ’’سونا سونے کے بدلے نہ بیچومگر برابر برابر اور زیادہ کم مت بیچو اور چاندی کو چاندی کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر ، ایک طرف زیادہ اور دوسری طرف کم نہ ہو اور نہ ایک طرف اُدھار ، دوسری طرف نقد۔‘‘ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:: (( اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ فَمَنْ زَادَ اَوِاسْتَزَادَ فَقَد اَرْبَی اَلَآخِذُ وَالْمُعطِیْ فِیْہِ سَوَائٌ)) [3] ’’سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی …‘‘ اس حدیث کے آخر میں ہے ، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا، وہ سود میں پڑ گیا ، لینے والا اور دینے والا برابر ہے۔ اس مذکورہ سکیم میں بھی آدمی کم رقم دے کر بغیر کوئی چیز فروخت کرنے کے محنت کے زیادہ رقم لے لیتا ہے جو سراسر سود اور غیر شرعی ہے۔ گولڈن کی انٹر نیشنل: مغربی سودی اور قماری سکیموں کو زیادہ مقبول شکل میں پیش کرنے کے لیے ایک بہت بڑا حیلہ اختیار کیا گیا ہے جسے گولڈن کی سکیم کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں بظاہر ممبرز کو کمپنی ایک چیز فروخت کرتی ہے لیکن کمپنی اور ممبرز محض چیزوں کی عام مروجہ اور شفاف طریقہ فروخت سے زیادہ دولت اکٹھی نہ کر سکتے تھے چنانچہ اس سکیم میں فروخت کا بھی ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ ممبر ز تھوڑی سی رقم لگا کر بہت زیادہ دولت اکٹھی کر سکیں جبکہ کمپنی بھی آسانی سے
[1] ابن ماجہ؍کتاب التجارات؍باب التغلیظ فی الربا [2] بخاری؍کتاب البیوع؍باب بیع الفضۃ بالفضۃ۔ مسلم؍کتاب البیوع؍باب الربا۔ [3] مسلم؍کتاب البیوع؍باب الصرف و بیع الذھب بالورق نقداً