کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 600
یہاں تک پہنچ کر آپ کے پاس بارہ لاکھ جمع ہو جائیں گے۔ اس کے بعد آپ کا نام فارم سے ختم ہو جائے گا۔ پھر دوسرے آ پ کی جگہ لیتے جائیں گے ۔ علاوہ ازیں کمپنی کی طرف سے یہ بھی گارنٹی ہے کسی ممبر سے فارم آگے نہ چل سکے تو وہ ہمیں درخواست لکھ دے ۔چیرٹی بکس والے خانے سے جمع ہونے والی رقم میں سے نمبر آنے پر اسے/ ۳۵۰۰روپے مل جائیں گے۔ یعنی/۴۵۰روپے پھر بھی زیادہ ملیں گے۔ اور خسارے کا کوئی امکان نہیں ۔ یہ سکیم کئی وجوہات کی بنا ء پر غیر شرعی ہے۔ 1۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَحَلَّ ا للّٰه الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾[البقرۃ:۲۷۵] ’’اللہ نے بیع ( خرید و فروخت) کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ ‘‘ (البقرۃ)جبکہ یہ سکیم تجارت کی صورت سے خارج ہے۔ تجارت میں لین دین کرنے والوں کے درمیان کوئی چیز ہوتی ہے جس سے مال اور اشیاء کا تبادلہ ہوتا ہے جبکہ یہاں کوئی چیز نہیں ہے۔ صرف لوگوں کو قائل کر کے اور کاغذ آگے بانٹ کر اس کمپنی کے چنگل میں پھنسانا ہوتا ہے۔ اگر اسے دلالی کی قیمت سمجھیں تو پھر بازارِ حسن کی طوائفوں کی دلالی کرنے والے اور اس پر وقت اور محنت صرف کرنے والے کے کاروبار کو بھی حلال اور تجارت ماننا پڑے گا۔ کیونکہ دونوں میں صورت ایک سی ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام کیا ہے اور ادھر بدکاری ایک حرام فعل ہے۔ 2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ سود بھی خوفناک ظلم کی صورت ہے کہ اس نے تو اپنی رقم کمپنی کے کھاتہ میں اور کچھ دوسرے افراد میں تقسیم کی ہے جبکہ اسے جو کچھ ملتا ہے ، وہ نہ کمپنی کی طرف سے ہوتا ہے اور نہ ہی ان افراد کی طرف سے جن کو اس نے رقم منی آرڈر وغیرہ کی ہے ۔ جو کچھ ملتا ہے ، وہ ان نئے افراد کی طرف سے ملتا ہے ، جن کو صرف ایک کاغذ دے کر پیسے لیے جاتے ہیں ۔ سود میں تو یہ ظلم ہے کہ قرضہ وغیرہ دے کر مقروض سے ناجائز فائدہ اُٹھایا جاتا ہے لیکن یہاں اس شخص سے فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے جس کو کچھ دیا ہی نہیں ۔ اور سود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور سودی کاروبار میں ملوث، لینے ، دینے والے اور لکھنے ، گواہی دینے والے سب برابر کے لعنتی ہیں ۔ (مسلم) [1] اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: (( دِرْھَمُ رِبًا یاْ کُلُہُ الرَّجُلُ وَھُوَ یَعْلَمُ اَشَدُّ عِنْدَ ا للّٰه مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلَاثِیْنَ زَنِیَّۃً)) ’’ سود کا ایک درہم جسے آدمی کھاتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ سود ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں چھتیس(۳۶) مرتبہ زنا سے بھی زیادہ سخت ہے (یعنی برا ہے)‘‘ (صحیح الجامع الصغیر:۳۳۷۵)
[1] مسلم؍کتاب البیوع؍باب لعن آکل الربا وموکلہ۔ ترمذی؍کتاب البیوع؍باب ما جاء فی اکل الربا۔