کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 595
انہوں نے یہ سسٹم تھائی لینڈ میں اپنے آٹھ سالہ قیام کے دوران سیکھا۔ کراچی ، حیدر آباد سے ہوتا ہو ااب یہ لاہور آیا ہے اور جلدہی ملتان ، فیصل آباد اور ملک کے دوسرے اہم شہروں میں بھی کمپنی کی برانچز کھلنے والی ہیں ۔ کمپنی کا ماٹو صحت اور معاشی خوشحَالی یعنی Helth and wealth رکھا گیا ہے۔ بہت سے لوگ سٹی بینک اور ایسے بڑے بڑے اداروں کی اعلیٰ ترین پوسٹیں چھوڑ کر یہی کاروبار کر رہے ہیں ۔ کمپنی کے لٹریچر اور لیکچردونوں سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں جائز ذرائع سے کمانے کے طریقے بہت کم ہیں اور وہ صرف دو ہیں : (۱)…ملازمت ، (۲).....کاروبار۔ ملازمت میں اہلیت ، تعلیم ، تجربہ اور وقت کی پابندی لازمی ہوتی ہے ۔ تنخواہ بھی محدودسی ہوتی ہے چاہے محنت کم ہو یا زیادہ کاروبار میں سرمایہ ، تجربہ اور وقت توبیش بہا دینا ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ اس سسٹم میں نہ تجربے کی ضرورت ہے ، نہ زیادہ تعلیم کی ، سرمایہ اور اہلیت کی اور نہ ہی بہت زیادہ وقت دینا پڑتا ہے ، بس معمولی سرمایہ اور معمولی وقت دے کر آپ اپنے سب خواب پورے کر سکتے ہیں ۔اس میں نوکری ، کاروبار کی طرح کوئی رسک بھی نہیں ۔ کمپنی میں کوئی کسی کا باس نہیں ، سپر وائزر ، مینجر ، ڈائریکٹر وغیرہ کے عہدے محض اعزازی ہیں ۔(ویسے حال ہی میں گولڈن کی والوں نے اخبارات میں اپنے ایک اعزازی ڈائریکٹر برہان بصری کو کمپنی کے مفاد کے منافی سرگرمیوں کی بناء پر برطرف کرنے کا اشتہار دیا۔ (ڈان ۱۱ /اگست ۲۰۰۲ء) حیرانگی ہے کہ کمپنی میں جب کوئی باس نہیں تو انہیں کس نے برطرف کر دیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زیادہ سرمایہ جمع کرلینے والوں کو یا کمپنی کے اصل حقائق تک رسائی پا جانے والوں کو کمپنی فوراً اپنے کاروبار سے الگ کر دیتی ہے۔ اس طرح تو کسی کے سرمائے اور منافع کی کوئی گارنٹی نہیں رہتی۔ ویسے کمپنی آئے دن اپنے دفاتر کی جگہ بھی بدلتی رہتی ہے۔ اس صورت میں کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے اور ایسی کمپنیاں کئی بار پیسے لے کر بھاگ چکی ہیں ۔ جیسا کہ ابھی حال ہی میں یہ مضمون تیار ہونے تک گولڈن کی انٹر نیشنل کے ملتے جلتے طریقے پر کام کرنے والی انٹر نیٹ کی کمپنی بزناس کو حکومت نے غیر قانونی قرار دیا ہے اور اس کے نمائندے غائب ہو گئے ہیں ۔ ڈان۳۰/۸/۲۰۰۲ء) اب سوال یہ ہے کہ جب یہ نوکری بھی نہیں کاروبار بھی نہیں ، تو پھر آخر کیا ہے؟ ہم ایسے کتنے سوالات کا جواب چاہتے تھے اور پھر خاص طور پر انہوں نے مارکیٹنگ کا جو طریقہ بیان کیا ( جس کا ذکر آگے علماء کی آراء میں آئے گا) اس پر تو کتنے ہی سوالات جواب طلب تھے لیکن وہ سب تشنہ ہی رہے ۔ کلاس ختم کر د ی گئی۔ بعد ازاں ہم ان کے سر گرم ممبران سے بھی رابطہ کرتے رہے لیکن کوئی بھی ہم سے زیادہ بات کرنے کو تیار نہ تھا کیونکہ اس سے انہیں اپنے کاروبار کے وقت کا ضیاع محسوس ہوتا اور یہ بھی ڈر کہ بحث سے کوئی کمزور بات ہمارے