کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 592
بے کار کاموں میں لگانے کے لیے نئی سکیموں کا جال لے کر آ گئے۔ تین ماہ قبل دولت مند بننے کی ایک ایسی ہی شارٹ کٹ سکیم کا علم ہوا تو ہم نے اس سکیم کے پس پردہ مسلم نوجوانوں کو لوٹنے کھسوٹنے کے مقاصد کو بھانپ کر فوری طور پرمجلہ الدعوۃ میں قارئین کو عموماًاور وابستگان کتاب و سنت کو خصوصاً اس شیطانی دھوکے سے خبردار کر دیا۔ اس سلسلے میں جماعت کے بہت سے جید علماء نے بھی اس سکیم کی مذمت کی جن کی ناپسندیدگی اور مذمت کے بارے میں بھی ہم نے آگاہ کر دیا ۔ ہمارا خیال تھا کہ اتنا کچھ اس سکیم کے سدِ باب کے لیے کافی رہے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے حالات بنتے گئے کہ جن کی وجہ سے علماء کی آراء کی روشنی میں اس سکیم کا تفصیلی جائزہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایک طرف بہت سے احباب اور درد مندانِ ملت و جماعت کا اصرار تھا کہ اس سکیم کا مفصل و مدلل جائزہ پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کو اس طرف جانے سے مکمل شرح صدر کے ساتھ روکا جا سکے ، دوسری طرف یہ معتبر اطلاعات تھیں کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس سکیم میں شامل ہو رہی ہے اور ان کی تعداد تیس ہزار سے متجاوز ہو رہی ہے ، اسی اثناء میں یہ بھی معلوم ہوا کہ آج کل ملک میں صرف یہی ایک سکیم نہیں بلکہ اس سے ملتی جلتی کتنی ہی سودی و قماری سکیمیں خود رو جھاڑیوں کی طرح پھیل چکی ہیں اور ڈائن کی طرح ملک کے نوجوانوں کا مال و خون چوس رہی ہیں ۔ کہیں تو کوئی سکیم بغیر کوئی چیز فروخت کیے محض پیسوں کے ادل بدل سے چند ہزار لگا کر لاکھوں روپے حاصل کرنے کا لالچ دیتی ہیں ، کہیں علماء کے براہِ راست فتوے سے بچنے کے لیے چند اشیاء کی سیل کا جھانسہ بھی درمیان میں رکھ دیا گیا ہے اور وہ بھی بہت مہنگی لیکن باقی سارا طریقہ اور مقصد تقریبا وہی ہے ، یعنی معمولی پیسے لگا کر زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنا۔ اگر اشیاء فروخت کرنا ان کا مقصد ہوتا تو یہ تجارت کے معروف شفاف طریقے اختیار کرتے لیکن چونکہ ان کا اصل مقصد یہ نہیں تھا بلکہ اصل مقصد ہیر پھیر کا وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے چند سو یا چند ہزار روپے لاکھوں کروڑوں میں بدل جائیں ، اس لیے ان سکیموں میں اشیاء کی فروخت کا وجود یا عدم وجود تو ہو سکتا ہے لیکن تمام سکیموں میں تھوڑی ہیر پھیر کے ساتھ مارکیٹنگ کا وہ گورکھ اور پیچیدہ طریقہ لازمی اور مشترک ہے کہ جس کے بغیر کمپنی اور ممبران اپنے اصل مقصد یعنی معمولی رقم اور برائے نام محنت سے بے پناہ دولت کے مالک نہیں بن سکتے۔ چنانچہ انہی سب وجوہات کی بناء پر ان سکیموں کا ہم مفصل و مدلل جائزہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ان کمپنیوں میں سے ایک ورلڈ ٹریڈنگ نیٹ ہے جس میں صرف ۳۰۵۰ روپے جمع کروا کر ممبر کو بالآخر بارہ لاکھ مل جاتے ہیں ۔ اس میں کوئی چیز بیچنا نہیں پڑتی۔ صرف رقم کا لوگو ں میں ہیر پھیر ہے۔ اس کی تفصیل آگے علماء کے