کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 59
کرتا، تو اس طریقے سے نباتات کے ذریعے سے غذا کا انتظام کرنا محال اور نا ممکن ہو جاتا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَلْیَنْظُرِ الْإِ نْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖ o أَنَّا صَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًّا o ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا o فَأَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا o وَّعِنَبًا وَّ قَضْبًا o وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا o وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا o وَّفَاکِھَۃً وَّأَ بًّا o مَّتَاعًا لَّکُمْ وَ لِأَنْعَامِکُمْ o﴾ [عَبَسَ:۲۴ تا ۳۲] ’’پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے ،ہم نے خوب پانی لنڈھایا( برسایا) ، پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا، پھر اس کے اندر اگائے غلے، اور انگور اور ترکاریاں ، اور زیتون اور کھجور، اور گھنے باغ، اور طرح طرح کے پھل اور چارے، تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زیست کے طور پر۔‘‘ جب انسان یا حیوان خوراک کھا لیتا ہے اور ہر مخلوق کو جو مشینری اور آلات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں ان کے ذریعے سے اس خوراک کو ہضم کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس خوراک کو زندہ جان کے ایک ایک حصے تک پہنچا دیتا ہے، چاہے وہ دماغ کا بالکل درمیان ہو یا چمڑی کا اوپر والا حصہ یا ہڈیوں کے اندر کا گودا (مخ) ۔اللہ تعالیٰ نے کیا صحیح فرمایا: ﴿أَمَّنْ ھٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُکُمْ إِنْ أَمْسَکَ رِزْقَہٗ ج بَلْ لَّجُّوْا فیِْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْرٍ o ﴾ [الملک:۲۱] ’’یا پھر بتاؤ، کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے اگر رحمن اپنا رزق روک لے؟ دراصل یہ لوگ سر کشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں ۔‘‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رزاق ذات نے ساری مخلوق کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مچھلیوں کو سمندر کی گہرائیوں میں بھی اللہ رزق دے رہا ہے اور پہاڑ کی چٹانوں کے اندر موجود کیڑوں کوبھی اللہ رزق عطا کر رہا ہے او ررحم مادر کی تاریکی میں موجود بچے کو بھی رزق فراہم کر رہا ہے، حتیٰ کہ بیج کے پیٹ میں پرورش پانے والی نباتات کی کونپلوں کو بھی اللہ تعالیٰ رزق دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلاَّ عَلَی ا للّٰه رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا ط کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ o﴾ [ھود:۶] ’’ اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔‘‘