کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 588
ہاں اسلام کے نظام صدقہ زکوٰۃ کو تعاون کی ایک صورت قرار دے سکتے ہیں کیونکہ وہ مستحقین کو دیے جاتے ہیں ان سے اس کے معاوضہ میں کچھ وصول نہیں کیا جاتا بلکہ صدقہ زکوٰۃ دینے والوں پر پابندی ہے جن کو وہ صدقہ زکوٰۃ دے رہے ہیں انہیں کسی قسم کی اذیت نہیں پہنچانی اور نہ ہی ان پہ احسان جتلانا ہے ورنہ ان کا صدقہ زکوٰۃ باطل ہو جائیں گے۔ اگر کوئی بیمہ کو تعاون کی صورت قرار دینے پر مصر ہو تو اس کی خدمت میں گزارش ہے کہ اسلام نے تعاون کی اس صورت کو بوجہ جوا، اور سود ناجائز اور حرام قرار دے دیا ہے دیکھئے کوئی آدمی یا کمپنی کسی کا مال چوری کر کے یا چوری کروا کے لوگوں میں تقسیم کرے کچھ تھوڑ ا بہت معاوضہ قسطوں کی صورت میں ان سے لے لے اور اس کو تعاون و ہمدردی کا نام دے لے تو آیا تعاون کی یہ صورت جائزہو گی؟ نہیں ہر گز نہیں ! بالکل اسی طرح بیمہ بھی بجمیع اقسامہ ناجائز اور حرام ہے۔ جتنی رقم آپ نے جمع کروائی اتنی ہی واپس لے لیں او ربیمہ چھوڑ دیں ۔ (۲).....اس معاوضہ کا نام اسلام میں دیت ہے اور دیت لینا دینا کتاب و سنت کی رُو سے درست ہے ، حلال اور جائز ہے ، لہٰذا آپ یہ معاوضہ دیت لے سکتے ہیں ۔ (۳).....نہیں لے سکتی کیونکہ یہ بھی سود ہی ہے اور سود حرام ہے۔ (۴).....مکان زمین کا کرایہ وصول کرنا جائز اور درست ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زمین کرایہ پر دی جاتی تھی[1] یہ سود کے زمرہ میں شامل نہیں جیسے اسلامی اصول کے مطابق بیع و شراء اور تجارت سود نہیں ۔ ۷/۱۰/۱۴۲۰ھ س: میں نے نئی موٹر سائیکل/ ۶۰۰۰۰ روپے میں خریدی اور انشورنس کروائی۔ میں نے انشورنس کا چھ ہزار جمع کروایا اور گاڑی دو ماہ بعد مجھ سے چھن گئی۔ مجھے انشورنس کمپنی نے/۶۰۰۰۰روپے ادا کردیے۔ کیا میں اس رقم کی دوسری گاڑی لے سکتا ہوں ؟ (سید راشد علی ،سکھر) ج: آپ جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾[البقرۃ:۲۷۵] [’’اور اس نے حرام کیا سود کو۔‘‘]اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((دِرْھَمُ رِبًا یَأکُلُہُ الرَّجُلُ وَھُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلَاثِیْنَ زِیْنَۃً)) [2] [’’سود کا ایک درہم جس کو کوئی آدمی کھاتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔‘‘ ]
[1] بخاری؍کتاب الحرث والمزارعۃ؍باب کراء الارض بالذھب والفضۃ۔ ترمذی؍کتاب الاحکام؍باب ما ذکر فی المزارعۃ۔ [2] مشکوٰۃ/کتاب البیوع/ باب الربا/ الفصل الثالث۔ قال الشیخ الالبانی وإسنادہ صحیحٌ۔