کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 586
بارے میں اگر آپ صحیح معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو الریاض سپریم کورٹ کے قاضی الشیخ عبداللہ بن ناصر السلمان حفظہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’وجوب حفظ المال و أثر التقسیط علیہ ‘‘ پڑھیں ، قطع نظر اس بات کے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے یا ناجائز ۔ اور اگر آپ بیوع کے حیلوں کے بار ے میں ’ جو آخر کار سود تک لے جاتے ہیں ‘ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو بیع عینہ وغیرہ کی حرمت کے اسباب کے متعلق حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’تہذیب السنن ‘‘ میں جو لکھا ہے وہ پڑھیں ، انہوں نے اس مسئلہ پر بہت عمدہ اور اچھے پیرائے میں کلام کیا ہے مگر بعض مقامات پر اُن سے تسامح ہوا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی چیز کی ’’نقد بیع مثلاً دس کی ، اور اُدھار پندرہ کی ‘‘ جائز نہیں اور اس بیع کی صورتوں میں سے قسطوں کی بیع بھی ہے جس میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے نقد کی قیمت سے زیادہ لی جاتی ہے۔ دلیل اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کو خواہ شروع میں صرف اُدھار کی ہی بات ہو ‘ اس کو موجودہ قیمت سے زیادہ پر بیچنا جائز نہیں ، اس لیے کہ اس میں سود داخل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان اعمال کی توفیق عطا فرمائے جن میں اس کی رضا ہے ، اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے آل و اصحاب پر کثرت سے درُود و سلام بھیجے۔ والسلام علیکم وعلی من لدیکم ابن عبدالحق بقلمہ ۱۹؍۶؍۱۴۲۱ھ سرفراز کالونی ، گوجرانوالہ س: میں نے دو سال پہلے بیٹے کی زندگی کا بیمہ کروایا تھا ۔ جس کے ہر سال پانچ ہزار یعنی کل دس ہزار اُن کو دیے جا چکے ہیں اس میں ایکسیڈنٹ کا بھی بیمہ تھا کہ بچے کی ہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے تو وہ ہر جانہ دیں گے۔ ستمبر میں میرے اس بچے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ۔ اس سے پہلے ہی میری نیت تھی کہ میں نے بیمہ ختم کروانا ہے۔